يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّهِ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ
اے ایمان والو! تمہارے اموال اور تمہاری اولاد [١٤] تمہیں اللہ کی یاد سے غافل نہ کردیں اور جو لوگ ایسا کریں وہی خسارہ اٹھانے والے ہیں
مال و دولت کی خود سپردگی خرابی کی جڑ ہے اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو حکم دیتا ہے کہ ’ وہ بکثرت ذکر اللہ کیا کریں اور تنبیہ کرتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ مال و اولاد کی محبت میں پھنس کر ذکر اللہ سے غافل ہو جاؤ ‘ ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ جو ذکر اللہ سے غافل ہو جائے اور دنیا کی زینت ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھے ، اپنے رب کی اطاعت میں سست پڑ جائے ، وہ اپنا نقصان آپ کرنے والا ہے ‘ ۔ پھر اپنی اطاعت میں مال خرچ کرنے کا حکم دے رہا ہے کہ ’ اپنی موت سے پہلے خرچ کر لو ، موت کے وقت کی بے بس دیکھ کر نادم ہونا اور امیدیں باندھنا کچھ نفع نہ دے گا ، اس وقت انسان چاہے گا کہ تھوڑی سی دیر کے لیے بھی اگر چھوڑ دیا جائے تو جو کچھ نیک عمل ہو سکے کر لے اور اپنا مال بھی دل کھول کر راہ اللہ دے لے ، لیکن آہ اب وقت کہاں ، آنے والی مصیبت آن پڑی اور نہ ٹلنے والی آفت سر پر کھڑی ہو گئی ‘ ۔ اور جگہ فرمان ہے «وَأَنْذِرْ النَّاسَ یَوْمَ یَأْتِیہِمْ الْعَذَاب فَیَقُول الَّذِینَ ظَلَمُوا رَبَّنَا أَخِّرْنَا إِلَی أَجَل قَرِیب نُجِبْ دَعْوَتَک وَنَتَّبِعْ الرٰسُل أَوَلَمْ تَکُونُوا أَقْسَمْتُمْ مِنْ قَبْل مَا لَکُمْ مِنْ زَوَال» ۱؎ (14-ابراھیم:44) الخ ، یعنی ’ لوگوں کو ہوشیار کر دے جس دن ان کے پاس عذاب آئے گا تو یہ ظالم کہنے لگیں گے ، اے ہمارے رب ہمیں تھوڑی سی مہلت مل جائے تاکہ ہم تیری دعوت قبول کر لیں اور تیرے رسولوں کی اتباع کریں ‘ ۔