اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ ۖ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا ۖ وَفِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٌ ۚ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ
خوب جان لو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل تماشا، زینت و آرائش، تمہارا آپس میں ایک دوسرے پر فخر کرنا اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے زیادہ حاصل کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ جیسے بارش ہوئی تو اس کی نباتات نے کاشتکاروں کو خوش کردیا پھر وہ جوبن پر آتی ہے پھر تو اسے زرد پڑی ہوئی دیکھتا ہے۔ پھر (آخر کار) وہ بھس بن جاتی ہے۔ جبکہ آخرت میں (ایسی غفلت کی زندگی کا بدلہ) سخت عذاب [٣٥] ہے۔ اور (ایمان والوں کے لئے) اللہ کی بخشش اور اس کی رضا ہے۔ اور دنیا کی زندگی تو محض دھوکے کا سامان ہے
دنیا کی زندگی صرف کھیل تماشا ہے امر دنیا کی تحقیر و توہین بیان ہو رہی ہے کہ ’ اہل دنیا کو سوائے لہو و لعب زینت و فخر اور اولاد و مال کی کثرت کی چاہت کے اور ہے بھی کیا ؟‘ جیسے اور آیت میں ہے «زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبٰ الشَّہَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِینَ وَالْقَنَاطِیرِ الْمُقَنطَرَۃِ مِنَ الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَۃِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ذٰلِکَ مَتَاعُ الْحَیَاۃِ الدٰنْیَا وَ اللہُ عِندَہُ حُسْنُ الْمَآبِ» ۱؎ (3-آل عمران:14) ، یعنی ’ لوگوں کے لیے ان کی خواہش کی چیزوں کو مزین کر دیا گیا ہے جیسے عورتیں بچے وغیرہ پھر حیات دنیا کی مثال بیان ہو رہی ہے کہ اس کی تازگی فانی ہے اور یہاں کی نعمتیں زوال پذیر ہیں ۔‘ «غَیْثٍ» کہتے ہیں اس بارش کو جو لوگوں کی ناامیدی کے بعد برسے ۔ جیسے فرمان ہے آیت «وَہُوَ الَّذِی یُنَزِّلُ الْغَیْثَ مِن بَعْدِ مَا قَنَطُوا وَیَنشُرُ رَحْمَتَہُ وَہُوَ الْوَلِیٰ الْحَمِیدُ» ۱؎ (42-الشوری:28)، ’ اللہ وہ ہے جو لوگوں کی ناامیدی کے بعد بارش برساتا ہے ۔ ‘ پس جس طرح بارش کی وجہ سے زمین سے کھیتیاں پیدا ہوتی ہیں اور وہ لہلہاتی ہوئی کسان کی آنکھوں کو بھی بھلی معلوم ہوتی ہیں ، اسی طرح اہل دنیا اسباب دنیوی پر پھولتے ہیں ، لیکن نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہی ہری بھری کھیتی خشک ہو کر زرد پڑ جاتی ہے پھر آخر سوکھ کر ریزہ ریزہ ہو جاتی ہے ۔ ٹھیک اسی طرح دنیا کی تروتازگی اور یہاں کی بہبودی اور ترقی بھی خاک میں مل جانے والی ہے ، دنیا کی بھی یہی صورتیں ہوتی ہیں کہ ایک وقت جوان ہے پھر ادھیڑ ہے پھر بڑھیا ہے ، ٹھیک اسی طرح خود انسان کی حالت ہے اس کے بچپن جوانی ادھیڑ عمر اور بڑھاپے کو دیکھتے جائیے پھر اس کی موت اور فنا کو سامنے رکھے ، کہاں جوانی کے وقت اس کا جوش و خروش زور طاقت اور کس بل ؟ اور کہاں بڑھاپے کی کمزوری جھریاں پڑا ہوا جسم خمیدہ کمر اور بےطاقت ہڈیاں ؟ جیسے ارشاد باری ہے آیت « اللہُ الَّذِی خَلَقَکُم مِّن ضَعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِن بَعْدِ ضَعْفٍ قُوَّۃً ثُمَّ جَعَلَ مِن بَعْدِ قُوَّۃٍ ضَعْفًا وَشَیْبَۃً یَخْلُقُ مَا یَشَاءُ وَہُوَ الْعَلِیمُ الْقَدِیرُ » ۱؎ (30-سورۃالروم:54) ’ اللہ وہ ہے جس نے تمہیں کمزوری کی حالت میں پیدا کیا پھر اس کمزوری کے بعد قوت دی پھر اس وقت کے بعد کمزوری اور بڑھاپا کر دیا وہ جو چاہے پیدا کرتا ہے اور وہ عالم اور قادر ہے ۔‘ اس مثال سے دنیا کی فنا اور اس کا زوال ظاہر کر کے پھر آخرت کے دونوں منظر دکھا کر ایک سے ڈراتا ہے اور دوسرے کی رغبت دلاتا ہے ۔ پس فرماتا ہے عنقریب آنے والی قیامت اپنے ساتھ عذاب اور سزا کو لائے گی اور مغفرت اور رضا مندی رب کو لائے گی ، پس تم وہ کام کرو کہ ناراضگی سے بچ جاؤ اور رضا حاصل کر لو ، سزاؤں سے بچ جاؤ اور بخشش کے حقدار بن جاؤ ، دنیا صرف دھوکے کی ٹٹی ہے ، اس کی طرف جھکنے والے پر آخر وہ وقت آ جاتا ہے کہ یہ اس کے سوا کسی اور چیز کا خیال ہی نہیں کرتا اسی کی دھن میں روز و شب مشغول رہتا ہے بلکہ اس کمی والی اور زوال والی کمینی دنیا کو آخرت پر ترجیح دینے لگتا ہے ، شدہ شدہ یہاں تک نوبت پہنچ جاتی ہے کہ بسا اوقات آخرت کا منکر بن جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { ایک کوڑے برابر جنت کی جگہ ساری دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے بہتر ہے } ۔ پڑھو قرآن فرماتا ہے کہ دنیا تو صرف دھوکے کا سامان ہے۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:685/11:صحیح) ۔ آیت کی زیادتی بغیر یہ حدیث صحیح میں بھی ہے۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3250) «وَاللہُ اَعْلَمُ»