فَمَالِئُونَ مِنْهَا الْبُطُونَ
اسی سے تم اپنے پیٹ بھرو گے
منکرین قیامت کو جواب اللہ تعالیٰ قیامت کے منکرین کو لاجواب کرنے کے لیے قیامت کے قائم ہونے اور لوگوں کے دوبارہ جی اٹھنے کی دلیل دے رہا ہے ، فرماتا ہے کہ جب ہم نے پہلی مرتبہ جبکہ تم کچھ نہ تھے تمہیں پیدا کر دیا تو اب فنا ہونے کے بعد جبکہ کچھ نہ کچھ تو تم رہو گے ہی ۔ تمہیں دوبارہ پیدا کرنا ہم پر کیا گراں ہو گا ؟ جب ابتدائی اور پہلی پیدائش کو مانتے ہو تو پھر دوسری مرتبہ کے پیدا ہونے سے کیوں انکار کرتے ہو ؟ دیکھو انسان کے خاص پانی کے قطرے تو عورت کے بچہ دان میں پہنچ جاتے ہیں اتنا کام تو تمہارا تھا لیکن اب ان قطروں کو بصورت انسان پیدا کرنا یہ کس کا کام ہے ؟ ظاہر ہے کہ تمہارا اس میں کوئی دخل نہیں کوئی ہاتھ نہیں کوئی قدرت نہیں کوئی تدبیر نہیں ، پیدا کرنا یہ صفت صرف خالق کل اللہ رب العزت کی ہی ہے ٹھیک اسی طرح مار ڈالنے پر بھی وہی قادر ہے ۔ کل آسمان و زمین والوں کی موت کا متصرف بھی اللہ ہی ہے ۔ پھر بھلا اتنی بڑی قدرتوں کا مالک کیا یہ نہیں کر سکتا کہ قیامت کے دن تمہاری پیدائش میں تبدیلی کر کے جس صفت اور جس حال میں چاہے تمہیں از سر نو پیدا کر دے ۔ پس جبکہ جانتے ہو ، مانتے ہو کہ ابتدائے آفرینش اسی نے کی ہے اور عقل باور کرتی ہے کہ پہلی پہلی پیدائش دوسری پیدائش سے مشکل ہے پھر دوسری پیدائش کا انکار کیوں کرتے ہو ؟ یہی اور جگہ ہے «وَہُوَ الَّذِیْ یَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ وَہُوَ اَہْوَنُ عَلَیْہِ وَلَہُ الْمَثَلُ الْاَعْلٰی فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ» (30-الروم:27) اللہ ہی نے پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے اور وہی دوبارہ دوہرائے گا اور یہ اس پر بہت ہی آسان ہے ، سورۃ یاسین میں «أَوَلَمْ یَرَ الْإِنسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاہُ مِن نٰطْفَۃٍ فَإِذَا ہُوَ خَصِیمٌ مٰبِینٌ» * «وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَنَسِیَ خَلْقَہُ قَالَ مَن یُحْیِی الْعِظَامَ وَہِیَ رَمِیمٌ» * «قُلْ یُحْیِیہَا الَّذِی أَنشَأَہَا أَوَّلَ مَرَّۃٍ وَہُوَ بِکُلِّ خَلْقٍ عَلِیمٌ» (36-یس:77-79) تک ارشاد فرمایا یعنی ’ ہم انسان کو نطفے سے پیدا کرتے ہیں پھر وہ حجت بازیاں کرنے لگتا ہے اور ہمارے سامنے مثالیں بیان کرنے لگتا ہے اور کہتا پھرتا ہے ان بوسیدہ گلی سڑی ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا تم اے نبی ! ہماری طرف سے جواب دو کہ انہیں وہ زندہ کرے گا جس نے انہیں پہلے پہل پیدا کیا ہے وہ ہر پیدائش کا علم رکھنے والا ہے ‘ ۔ سورۃ القیامہ میں فرمایا «أَیَحْسَبُ الْإِنسَانُ أَن یُتْرَکَ سُدًی» * «أَلَمْ یَکُ نُطْفَۃً مِّن مَّنِیٍّ یُمْنَی» * «ثُمَّ کَانَ عَلَقَۃً فَخَلَقَ فَسَوَّی» * «فَجَعَلَ مِنْہُ الزَّوْجَیْنِ الذَّکَرَ وَالْأُنثَی» * «أَلَیْسَ ذَلِکَ بِقَادِرٍ عَلَی أَن یُحْیِیَ الْمَوْتَی» (75-القیامۃ:40-36) سے آخر سورۃ تک ، یعنی ’ کیا انسان یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ اسے یونہی آوارہ چھوڑ دیا جائے گا ؟ کیا یہ ایک غلیظ پانی کے نطفے کی شکل میں نہ تھا ، پھر خون کے لوتھڑے کی صورت میں نمایاں ہوا تھا ؟ پھر اللہ نے اسے پیدا کیا درست کیا مرد عورت بنایا ایسا اللہ مُردوں کے زندہ کرنے پر قادر نہیں ؟ ‘