هَٰذَا نَذِيرٌ مِّنَ النُّذُرِ الْأُولَىٰ
یہ (نبی) بھی پہلے ڈرانے والوں میں سے ایک ڈرانے والا [٣٩] ہے۔
”نذیر“ کا مفہوم ، نذیر کہتے کسے ہیں یہ خوف اور ڈر سے آگاہ کرنے والے ہیں ۔ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت بھی ایسی ہی ہے جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے رسولوں کی رسالت تھی ۔ جیسے اور آیت میں ہے «قُلْ مَا کُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرٰسُلِ وَمَآ اَدْرِیْ مَا یُفْعَلُ بِیْ وَلَا بِکُمْ اِنْ اَتَّبِــعُ اِلَّا مَا یُوْحٰٓی اِلَیَّ وَمَآ اَنَا اِلَّا نَذِیْرٌ مٰبِیْنٌ» ۱؎ (46-الأحقاف:9) یعنی ’ میں کوئی نیا رسول تو ہوں نہیں رسالت مجھ سے شروع نہیں ہوئی بلکہ دنیا میں مجھ سے پہلے بھی بہت سے رسول آ چکے ہیں ، قریب آنے والی کا وقت آئے گا یعنی قیامت قریب آ گئی ، نہ تو اسے کوئی دفع کر سکے ، نہ اس کے آنے کے صحیح وقت معین کا کسی کو علم ہے ۔‘ «نذیر» عربی میں اسے کہتے ہیں مثلاً ایک جماعت ہے جس میں سے ایک شخص نے کوئی ڈراؤنی چیز دیکھی اور اپنی قوم کو اس سے آگاہ کرتا ہے یعنی ڈر اور خوف سنانے والا ۔ جیسے اور آیت میں ہے «اِنْ ہُوَ اِلَّا نَذِیْرٌ لَّکُمْ بَیْنَ یَدَیْ عَذَابٍ شَدِیْدٍ» ۱؎ (34-سبأ:46) ’ میں تمہیں سخت عذاب سے مطلع کرنے والا ہوں۔ ‘ حدیث میں ہے { تمہیں کھلم کھلا ڈرانے والا ہوں ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:9482) یعنی جس طرح کوئی شخص کسی برائی کو دیکھ لے کہ وہ قوم کے قریب پہنچ چکی ہے اور پھر جس حالت میں ہو اسی میں دوڑا بھاگا آ جائے اور قوم کو دفعۃً متنبہ کر دے کہ دیکھو وہ بلا آ رہی ہے ، فوراً تدارک کر لو اسی طرح قیامت کے ہولناک عذاب بھی لوگوں کی غفلت کی حالت میں ان سے بالکل قریب ہو گئے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان عذابوں سے ہوشیار کر رہے ہیں جیسے اس کے بعد کی سورت میں ہے «اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ» ۱؎ (54-القمر:1) ’ قیامت قریب آ چکی ۔‘ مسند احمد کی حدیث میں ہے { لوگو ! گناہوں کو چھوٹا اور حقیر جاننے سے بچو ، سنو چھوٹے چھوٹے گناہوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک قافلہ کسی جگہ اترا سب ادھر ادھر چلے گئے اور لکڑیاں سمیٹ کر تھوڑی تھوڑی لے آئے ، تو چاہے ہر ایک کے پاس لکڑیاں کم کم ہیں لیکن جب وہ سب جمع کر لی جائیں تو ایک انبار لگ جاتا ہے جس سے دیگیں پک جائیں اسی طرح چھوٹے چھوٹے گناہ جمع ہو کر ڈھیر لگ جاتا ہے اور اچانک اس گنہگار کو پکڑ لیتا ہے اور ہلاک ہو جاتا ہے ۔ } اور حدیث میں ہے { میری اور قیامت کی مثال ایسی ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شہادت کی اور درمیان کی انگلی اٹھا کر ان کا فاصلہ دکھایا میری اور قیامت کی مثال دو ساعتوں کی سی ہے میری اور آخرت کے دن کی مثال ٹھیک اسی طرح ہے جس طرح ایک قوم نے کسی شخص کو اطلاع لانے کے لیے بھیجا اس نے دشمن کے لشکر کو بالکل نزدیک کی کمین گاہ میں چھاپہ مارنے کے لیے تیار دیکھا یہاں تک کہ اسے ڈر لگا کہ میرے پہنچنے سے پہلے ہی کہیں یہ نہ پہنچ جائیں تو وہ ایک ٹیلے پر چڑھ گیا اور وہیں کپڑا ہلا ہلا کر انہیں اشارے سے بتا دیا کہ خبردار ہو جاؤ دشمن سر پر موجود ہے پس میں ایسا ہی ڈرانے والا ہوں ۔ } ۱؎ (مسند احمد:331/5:صحیح) اس حدیث کی شہادت میں اور بھی بہت سی حسن اور صحیح حدیثیں موجود ہیں ۔ پھر مشرکین کے اس فعل پر انکار فرمایا کہ وہ قرآن سنتے ہیں مگر اعراض کرتے ہیں اور بےپرواہی برتتے ہیں ، بلکہ اس کی رحمت سے تعجب کے ساتھ انکار کر بیٹھتے ہیں اور اس سے مذاق سنتے اور ہنسی کرنے لگتے ہیں ۔ چاہیئے یہ تھا کہ مثل ایمان داروں کے اسے سن کر روتے عبرت حاصل کرتے جیسے مومنوں کی حالت بیان فرمائی کہ وہ اس کلام اللہ شریف کو سن کر روتے دھوتے سجدہ میں گر پڑتے ہیں اور خشوع وخضوع میں بڑھ جاتے ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں «سَمَد» گانے کو کہتے ہیں یہ یمنی لغت ہے آپ سے «سَامِدُوْنَ» کے معنی اعراض کرنے والے اور تکبر کرنے والے بھی مروی ہیں ، علی اور حسن رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں غفلت کرنے والے ۔ پھر اپنے بندوں کا حکم دیتا ہے کہ ’ توحید و اخلاص کے پابند رہو خضوع ، خلوص اور توحید کے ماننے والے بن جاؤ ‘ ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ، مسلمانوں نے ، مشرکوں نے اور جن و انس نے سورۃ النجم کے سجدے کے موقعہ پر سجدہ کیا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7462) مسند احمد میں ہے کہ { مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ النجم پڑھی پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا اور ان لوگوں نے بھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے } ، راوی حدیث مطلب بن ابی وداعہ کہتے ہیں میں نے اپنا سر اٹھایا اور سجدہ نہ کیا ، یہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے اسلام کے بعد جس کسی کی زبانی اس سورۃ مبارکہ کی تلاوت سنتے سجدہ کرتے ۔ (مسند احمد:400/6:حسن) یہ حدیث نسائی شریف میں بھی ہے ۔ ۱؎ (سنن نسائی:959:حسن)