وَأَنَّ إِلَىٰ رَبِّكَ الْمُنتَهَىٰ
اور یہ کہ سب کو آپ کے پروردگار ہی کے پاس [٣٠] پہنچنا ہے۔
سب کی آخری منزل اللہ تعالٰی ادراک سے بلند ہے فرمان ہے کہ بازگشت آخر اللہ کی طرف ہے ۔ قیامت کے دن سب کو لوٹ کر اسی کے سامنے پیش ہونا ہے ۔ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے قبیلہ بنی اود میں خطبہ پڑھتے ہوئے فرمایا : ” اے بنی اود ! میں اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد بن کر تمہاری طرف آیا ہوں تم یقین کرو کہ تمہارا سب کا لوٹنا اللہ کی طرف ہے ، پھر یا تو جنت میں پہنچائے جاؤ یا جہنم میں دھکیلے جاؤ ۔ “ بغوی میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا : ” اللہ تعالیٰ کی ذات میں فکر کرنا جائز نہیں “ } ۔ ۱؎ (بغوی فی التفسیر:232/4:ضعیف) جیسے اور حدیث میں ہے { مخلوق پر غور بھری نظریں ڈالو لیکن ذات خالق میں گہرے نہ اترو ، اسے عقل و ادراک فکر و ذہن نہیں پا سکتا ۔ } ۱؎ (بغوی فی التفسیر:232/4:ضعیف) گو ان لفظوں سے یہ حدیث محفوظ نہیں ، مگر صحیح حدیث میں یہ بھی مضمون موجود ہے ، اس میں ہے کہ { شیطان کسی کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے اسے کس نے پیدا کیا ؟ پھر اسے کس نے پیدا کیا ؟ یہاں تک کہ کہتا ہے اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا ؟ جب تم میں سے کسی کے دل میں یہ وسوسہ پیدا ہوا تو «اعُوذُ بِاللّہِ مِن الشِّیطانِ الرَّجِیمِ» پڑھ لے اور اس خیال کو دل سے دور کر دے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:3276) سنن کی ایک حدیث میں ہے { مخلوقات اللہ میں غور و فکر کرو لیکن ذات اللہ میں غور و فکر نہ کرو ، سنو اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ پیدا کیا ہے جس کے کان کی لو سے لے کر مونڈھے تک تین سو سال کا راستہ ہے او کما قال ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:134) پھر فرماتا ہے کہ بندوں میں ہنسنے رونے کا مادہ اور ان کے اسباب بھی اسی نے پیدا کئے ہیں جو بالکل مختلف ہیں وہی موت و حیات کا خالق ہے ۔ جیسے فرمایا «الَّذِی خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاۃَ» ۱؎ (67-الملک:2) ’ اس نے موت و حیات کو پیدا کیا اسی نے نطفہ سے ہر جاندار کو جوڑ جوڑ بنایا ‘ ۔