وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ ۖ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ
ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور جو کچھ اس کے دل میں وسوسہ گزرتا [١٨] ہے، ہم تو اسے بھی جانتے ہیں اور اس کے گلے کی رگ سے بھی زیادہ اسکے قریب [١٩] ہیں۔
دائیں اور بائیں دو فرشتے اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ وہی انسان کا خالق ہے اور اس کا علم تمام چیزوں کا احاطہٰ کئے ہوئے ہے یہاں تک کہ انسان کے دل میں جو بھلے برے خیالات پیدا ہوتے ہیں انہیں بھی وہ جانتا ہے ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ { اللہ تعالیٰ نے میری امت کے دل میں جو خیالات آئیں ان سے درگزر فرما لیا ہے جب تک کہ وہ زبان سے نہ نکالیں یا عمل نہ کریں ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:2528) اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیادہ اس کے نزدیک ہیں یعنی ہمارے فرشتے اور بعض نے کہا ہے ہمارا علم ۔ ان کی غرض یہ ہے کہ کہیں حلول اور اتحاد نہ لازم آ جائے جو بالاجماع اس رب کی مقدس ذات سے بعید ہے اور وہ اس سے بالکل پاک ہے لیکن لفظ کا اقتضاء یہ نہیں ہے اس لیے کہ «وانا» نہیں کہا بلکہ «ونحن» کہا ہے یعنی میں نہیں کہا بلکہ ہم کہا ہے ۔ یہی لفظ اس شخص کے بارے میں کہے گئے ہیں جس کی موت قریب آ گئی ہو اور وہ نزع کے عالم میں ہو فرمان ہے «وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَیْہِ مِنکُمْ وَلٰکِن لَّا تُبْصِرُونَ» ۱؎ (56-الواقعۃ:85) یعنی ’ ہم تم سب سے زیادہ اس سے قریب ہیں لیکن تم نہیں دیکھتے ۔ ‘ یہاں بھی مراد فرشتوں کا اس قدر قریب ہونا ہے ۔ جیسے فرمان ہے «اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ» ۱؎ (15-الحجر:9) ’ یعنی ہم نے ذکر کو نازل فرمایا اور ہم ہی اس کے محافظ بھی ہیں ‘ فرشتے ہی ذکر قرآن کریم کو لے کر نازل ہوئے ہیں اور یہاں بھی مراد فرشتوں کی اتنی نزدیکی ہے جس پر اللہ نے انہیں قدرت بخش رکھی ہے ۔ پس انسان پر ایک پہرا فرشتے کا ہوتا ہے اور ایک شیطان کا اسی طرح شیطان بھی جسم انسان میں اسی طرح پھرتا ہے جس طرح خون ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3107) جیسے کہ سچوں کے سچے اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔