إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا
(اے نبی!) ہم نے آپ کو واضح فتح [١] عطا کردی۔
تفسیر سورۃ فتح صحیح بخاری ، صحیح مسلم اور مسند احمد میں عبداللہ بن مغفل سے روایت ہے کہ { فتح مکہ والے سال اثناء سفر میں راہ چلتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اونٹنی پر ہی سورۃ الفتح کی تلاوت کی اور ترجیع سے پڑھ رہے تھے ۔ اگر مجھے لوگوں کے جمع ہو جانے کا ڈر نہ ہوتا تو میں آپ کی تلاوت کی طرح ہی تلاوت کر کے تمہیں سنا دیتا ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:4281) ذی قعدہ سنہ ۶ ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ ادا کرنے کے ارادے سے مدینہ سے مکہ کو چلے لیکن راہ میں مشرکین مکہ نے روک دیا اور مسجد الحرام کی زیارت سے مانع ہوئے پھر وہ لوگ صلح کی طرف جھکے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس بات پر کہ اگلے سال عمرہ ادا کریں گے ان سے صلح کر لی جسے صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک بڑی جماعت پسند نہ کرتی تھی ، جس میں خاص قابل ذکر ہستی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ہے آپ نے وہیں اپنی قربانیاں کیں اور لوٹ گئے ، جس کا پورا واقعہ ابھی اسی سورت کی تفسیر میں آ رہا ہے ، ان شاءاللہ ۔ پس لوٹتے ہوئے راہ میں یہ مبارک سورت آپ پر نازل ہوئی جس میں اس واقعہ کا ذکر ہے اور اس صلح کو بااعتبار نتیجہ فتح کہا گیا ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ وغیرہ سے مروی ہے کہ تم تو فتح فتح مکہ کو کہتے ہو لیکن ہم صلح حدیبیہ کو فتح جانتے تھے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:794) سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے بھی یہی مروی ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:332/11) صحیح بخاری میں ہے { سیدنا براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں تم فتح مکہ کو فتح شمار کرتے ہو اور ہم بیعت الرضوان کے واقعہ حدیبیہ کو فتح گنتے ہیں ۔ ہم چودہ سو آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس موقعہ پر تھے حدیبیہ نامی ایک کنواں تھا ، ہم نے اس میں سے پانی اپنی ضرورت کے مطابق لینا شروع کیا تھوڑی دیر میں پانی بالکل ختم ہو گیا ایک قطرہ بھی نہ بچا آخر پانی نہ ہونے کی شکایت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کانوں میں پہنچی ، آپ اس کنویں کے پاس آئے اس کے کنارے بیٹھ گئے اور پانی کا برتن منگوا کر وضو کیا جس میں کلی بھی کی ، پھر کچھ دعا کی اور وہ پانی اس کنویں میں ڈلوا دیا ، تھوڑی دیر بعد جو ہم نے دیکھا تو وہ تو پانی سے لبالب بھرا ہوا تھا ہم نے پیا جانوروں نے بھی پیا اپنی حاجتیں پوری کیں اور سارے برتن بھر لیے ۔ }۱؎ (صحیح بخاری:4150) مسند احمد میں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا ، تین مرتبہ میں نے آپ سے کچھ پوچھا آپ نے کوئی جواب نہ دیا ، اب تو مجھے سخت ندامت ہوئی اس امر پر کہ افسوس میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دی آپ جواب دینا نہیں چاہتے اور میں خوامخواہ سر ہوتا رہا ۔ پھر مجھے ڈر لگنے لگا کہ میری اس بے ادبی پر میرے بارے میں کوئی وحی آسمان سے نہ نازل ہو ۔ چنانچہ میں نے اپنی سواری کو تیز کیا اور آگے نکل گیا ، تھوڑی دیر گزری تھی کہ میں نے سنا کوئی منادی میرے نام کی ندا کر رہا ہے ، میں نے جواب دیا تو اس نے کہا چلو تمہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یاد فرماتے ہیں ، اب تو میرے ہوش گم ہو گئے کہ ضرور کوئی وحی نازل ہوئی اور میں ہلاک ہوا ، جلدی جلدی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” گذشتہ شب مجھ پر ایک سورت اتری ہے جو مجھے دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے “ پھر آپ نے صلی اللہ علیہ وسلم «اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مٰبِیْنًا» } ۱؎ (48-الفتح:1) تلاوت کی ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4177) یہ حدیث بخاری ترمذی اور نسائی میں بھی ہے { سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حدیبیہ سے لوٹتے ہوئے آیت «لِّیَغْفِرَ لَکَ اللہُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ وَیُتِمَّ نِعْمَتَہُ عَلَیْکَ وَیَہْدِیَکَ صِرَاطًا مٰسْتَقِیمًا» (48-الفتح:2) نازل ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” مجھ پر ایک آیت اتاری گئی ہے جو مجھے روئے زمین سے زیادہ محبوب ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھ سنائی “ ، صحابہ رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبارکباد دینے لگے اور کہا یا رسول اللہ ! یہ تو ہوئی آپ کے لیے ہمارے لیے کیا ہے ؟ اس پر یہ آیت «لِّیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا وَیُکَفِّرَ عَنْہُمْ سَیِّاٰتِہِمْ وَکَانَ ذٰلِکَ عِنْدَ اللّٰہِ فَوْزًا عَظِیْمًا» } (48-الفتح:5) نازل ہوئی ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4172) { سیدنا مجمع بن جاریہ انصاری رضی اللہ عنہ جو قاری قرآن تھے فرماتے ہیں حدیبیہ سے ہم واپس آ رہے تھے کہ میں نے دیکھا کہ لوگ اونٹوں کو بھگائے لیے جا رہے ہیں پوچھا کیا بات ہے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی وحی نازل ہوئی ہے تو ہم لوگ بھی اپنے اونٹوں کو دوڑاتے ہوئے سب کے ساتھ پہنچے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت کراع الغمیم میں تھے جب سب جمع ہو گئے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سورت تلاوت کر کے سنائی ، ایک صحابی نے کہا یا رسول اللہ ! کیا یہ فتح ہے ؟ آپ نے فرمایا : ” ہاں ، قسم اس کی جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے یہ فتح ہے “ ، خیبر کی تقسیم صرف انہی پر کی گئی جو حدیبیہ میں موجود تھے اٹھارہ حصے بنائے گئے کل لشکر پندرہ سو کا تھا جس میں تین سو گھوڑے سوار تھے پس سوار کو دوہرا حصہ ملا اور پیدل کو اکہرا ۔ } ۱؎ (سنن ابوداود:2736،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) { سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : حدیبیہ سے آتے ہوئے ایک جگہ رات گزارنے کیلئے ہم اتر کر سو گئے ، تو ایسے سوئے کہ سورج نکلنے کے بعد جاگے ، دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی سوئے ہوئے ہیں ، ہم نے کہا : آپ کو جگانا چاہیئے کہ آپ خود جاگ گئے اور فرمانے لگے : ” جو کچھ کرتے تھے کرو اور اسی طرح کرے جو سو جائے یا بھول جائے ۔ اسی سفر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کہیں گم ہو گئی ، ہم ڈھونڈنے نکلے تو دیکھا کہ ایک درخت میں نکیل اٹک گئی ہے اور وہ رکی کھڑی ہے اسے کھول کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے آپ سوار ہوئے اور ہم نے کوچ کیا ، ناگہاں راستے میں ہی آپ پر وحی آنے لگی وحی کے وقت آپ پر بہت دشواری ہوتی تھی جب وحی ہٹ گئی تو آپ نے ہمیں بتایا کہ آپ پر سورۃ «اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مٰبِیْنًا» (48-الفتح:1) اتری ہے ۔ } ۱؎ (سنن ابوداود:447،قال الشیخ الألبانی:صحیح) { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نوافل تہجد وغیرہ میں اس قدر وقت لگاتے کہ پیروں پر ورم چڑھ جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے گناہ معاف نہیں فرما دیئے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ، کیا پھر میں اللہ کا شکر گزار غلام نہ بنوں ؟ } ۱؎ (صحیح بخاری:4836) اور روایت میں ہے کہ یہ پوچھنے والی ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا تھیں ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2820) پس «مبین» سے مراد کھلی صریح صاف ظاہر ہے اور «فتح» سے مراد صلح حدیبیہ ہے جس کی وجہ سے بڑی خیر و برکت حاصل ہوئی ، لوگوں میں امن و امان ہوا ، مومن کافر میں بول چال شروع ہو گئی ، علم اور ایمان کے پھیلانے کا موقعہ ملا ، آپ کے اگلے پچھلے گناہوں کی معافی یہ آپ کا خاصہ ہے جس میں کوئی آپ کا شریک نہیں ۔ ہاں ، بعض اعمال کے ثواب میں یہ الفاظ اوروں کے لیے بھی آئے ہیں ، اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت بڑی شرافت و عظمت ہے آپ اپنے تمام کاموں میں بھلائی استقامت اور فرمانبرداری الٰہی پر مستقیم تھے ایسے کہ اولین و آخرین میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں میں سب سے زیادہ اکمل انسان اور دنیا اور آخرت میں کل اولاد آدم کے سردار اور رہبر تھے ۔ اور چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ اللہ کے فرمانبردار اور سب سے زیادہ اللہ کے احکام کا لحاظ کرنے والے تھے۔ اسی لیے جب آپ کی اونٹنی آپ کو لے کر بیٹھ گئی تو { آپ نے فرمایا : ” اسے ہاتھیوں کے روکنے والے نے روک لیا ہے اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے آج یہ کفار مجھ سے جو مانگیں گے دوں گا بشرطیکہ اللہ کی حرمت کی ہتک نہ ہو ۔ “ } ۱؎ (صحیح بخاری:2731) پس جب آپ نے اللہ کی مان لی اور صلح کو قبول کر لیا تو اللہ عزوجل نے سورہ «فتح» اتاری اور دنیا اور آخرت میں اپنی نعمتیں آپ پر پوری کیں اور شرع عظیم اور دین قدیم کی طرف آپ کی رہبری کی اور آپ کے خشوع و خضوع کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بلند و بالا کیا ، آپ کی تواضع ، فروتنی ، عاجزی اور انکساری کے بدلے آپ کو عز و جاہ مرتبہ منصب عطا فرمایا ، آپ کے دشمنوں پر آپ کو غلبہ دیا چنانچہ خود { آپ کا فرمان ہے بندہ درگزر کرنے سے عزت میں بڑھ جاتا ہے اور عاجزی اور انکساری کرنے سے بلندی اور عالی رتبہ حاصل کر لیتا ہے ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2588) سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ تو نے کسی کو جس نے تیرے بارے میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی ہو ایسی سزا نہیں دی کہ تو اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرے ۔