فَكَيْفَ إِذَا تَوَفَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَارَهُمْ
پھر اس وقت ان کا کیا حال ہوگا جب فرشتے ان کی روح قبض کریں گے تو ان کے چہروں اور پشتوں [٣١] پر مار رہے ہوں گے
1 پھر فرماتا ہے ان کا کیا حال ہو گا ؟ جبکہ فرشتے ان کی روحیں قبض کرنے کو آئیں گے اور ان کی روحیں جسموں میں چھپتی پھریں گی اور ملائکہ جبرا ، قہرا ، ڈانٹ ، جھڑک اور مار پیٹ سے انہیں باہر نکالیں گے ۔ جیسے ارشاد باری ہے «وَلَوْ تَرَیٰ إِذْ یَتَوَفَّی الَّذِینَ کَفَرُوا الْمَلَائِکَۃُ یَضْرِبُونَ وُجُوہَہُمْ وَأَدْبَارَہُمْ وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِیقِ» ۱؎ (8-الأنفال:50) ، یعنی ’ کاش کہ تو دیکھتا جبکہ ان کافروں کی روحیں فرشتے قبض کرتے ہوئے ان کے منہ پر طمانچے اور ان کی پیٹھ پر مکے مارتے ہیں ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَلَوْ تَرَیٰ إِذِ الظَّالِمُونَ فِی غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلَائِکَۃُ بَاسِطُو أَیْدِیہِمْ أَخْرِجُوا أَنفُسَکُمُ الْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْہُونِ بِمَا کُنتُمْ تَقُولُونَ عَلَی اللہِ غَیْرَ الْحَقِّ وَکُنتُمْ عَنْ آیَاتِہِ تَسْتَکْبِرُونَ» ۱؎ (6-الأنعام:93) ، یعنی ’ کاش کہ تو دیکھتا جبکہ یہ ظالم سکرات موت میں ہوتے ہیں اور فرشتے اپنے ہاتھ ان کی طرف مارنے کے لیے پھیلائے ہوئے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں اپنی جانیں نکالو آج تمہیں ذلت کے عذاب کئے جائیں گے اس لیے کہ تم اللہ کے ذمے ناحق کہا کرتے تھے اور اس کی آیتوں میں تکبر کرتے تھے ‘ ۔ یہاں ان کا گناہ بیان کیا گیا کہ ان کاموں اور باتوں کے پیچھے لگے ہوئے تھے جن سے اللہ ناخوش ہو اور اللہ کی رضا سے کراہت کرتے تھے ۔ پس ان کے اعمال اکارت ہو گئے ۔