فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّىٰ إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً حَتَّىٰ تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا ۚ ذَٰلِكَ وَلَوْ يَشَاءُ اللَّهُ لَانتَصَرَ مِنْهُمْ وَلَٰكِن لِّيَبْلُوَ بَعْضَكُم بِبَعْضٍ ۗ وَالَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَلَن يُضِلَّ أَعْمَالَهُمْ
(مسلمانو!) جب تمہاری کافروں سے مڈ بھیڑ ہوجائے تو ان کی گردنیں اڑا دو یہاں تک کہ جب بےدریغ قتل کر چکو تو ان کی مشکیں کس (کر انہیں قیدی بنا) لو۔ پھر اس کے بعد یا تو ان پر احسان کرو یا تاوان لے کر چھوڑ دو۔ تاآنکہ لڑائی اپنے ہتھیار ڈال دے [٥]۔ (تمہارے لئے) یہی (حکم) ہے۔ اور اگر اللہ چاہتا تو خود بھی ان سے [٦] انتقام لے سکتا تھا۔ مگر (یہ حکم اس لئے ہے) تاکہ تمہیں ایک دوسرے کے ذریعہ آزمائے اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے اللہ ان کے اعمال کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔
جب کفار سے میدان جہاد میں آمنا سامنا ہو جائے یہاں ایمان داروں کو جنگی احکام دئیے جاتے ہیں کہ جب کافروں سے مڈبھیڑ ہو جائے دستی لڑائی شروع ہو جائے تو ان کی گردنیں اڑاؤ ، تلواریں چلا کر گردن دھڑ سے اڑا دو ۔ پھر جب دیکھو کہ دشمن ہارا اس کے آدمی کافی کٹ چکے تو باقی ماندہ کو مضبوط قید و بند کے ساتھ مقید کر لو ، جب لڑائی ختم ہو چکے ، معرکہ پورا ہو جائے ، تو پھر تمہیں اختیار ہے کہ قیدیوں کو بطور احسان بغیر کچھ لیے ہی چھوڑ دو اور یہ بھی اختیار ہے کہ ان سے تاوان جنگ وصول کرو پھر چھوڑو ۔ بہ ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ بدر کے غزوے کے بعد یہ آیت اتری ہے کیونکہ بدر کے معرکہ میں زیادہ تر مخالفین کو قید کرنے اور قید کرنے کی کمی کرنے میں مسلمانوں پر عتاب کیا گیا تھا اور فرمایا تھا «مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗٓ اَسْرٰی حَتّٰی یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدٰنْیَا وَاللّٰہُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ لَّوْلَا کِتَابٌ مِّنَ اللہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیمٌ» ۱؎ (8-الانفال:67) ، ’ نبی کو لائق نہ تھا کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ ایک مرتبہ جی کھول کر مخالفین میں موت کی گرم بازاری نہ ہو لے کیا تم دنیوی اسباب کی چاہت میں ہو ؟ اللہ کا ارادہ تو آخرت کا ہے اور اللہ عزیز و حکیم ہے ۔ اگر پہلے ہی سے اللہ کا لکھا ہوا نہ ہوتا تو جو تم نے لیا اس کی بابت تمہیں بڑا عذاب ہوتا ‘ ۔ بعض علماء کا قول ہے کہ یہ اختیار منسوخ ہے اور یہ آیت ناسخ ہے آیت «فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْہُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتٰمُــوْہُمْ وَخُذُوْہُمْ وَاحْصُرُوْہُمْ وَاقْعُدُوْا لَہُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَــلٰوْا سَـبِیْلَہُمْ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ» ۱؎ (9-التوبۃ:5) ، کی یعنی ’ حرمت والے مہینے جب گزر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ وہیں قتل کرو ‘ ۔ لیکن اکثر علماء کا فرمان ہے کہ منسوخ نہیں ۔ اب بعض تو کہتے ہیں قتل کر ڈالنے کا بھی اختیار ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ { بدر کے قیدیوں میں سے نضر بن حارث اور عقبہ بن ابومعیط کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل کرا دیا تھا اور یہ بھی اس کی دلیل ہے کہ ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ نے جب کہ وہ اسیری حالت میں تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا تھا کہ کہو ثمامہ ! کیا خیال ہے ؟ ، تو انہوں نے کہا : اگر آپ قتل کریں گے تو ایک خون والے کو قتل کریں گے اور اگر آپ احسان رکھیں گے تو ایک شکر گزار پر احسان رکھیں گے اور اگر مال طلب کرتے ہیں تو جو آپ مانگیں گے مل جائے گا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4372) امام شافعی رحمہ اللہ ایک چوتھی بات کا بھی اختیار بتاتے ہیں یعنی قتل ، احسان ، بدلے کا اور غلام بنا کر رکھ لینے کا ۔ اس مسئلے کی تفصیل کی جگہ فروعی مسائل کی کتابیں ہیں ۔ اور ہم نے بھی اللہ کے فضل و کرم سے کتاب الاحکام میں اس کے دلائل بیان کر دئیے ہیں ۔ پھر فرماتا ہے یہاں تک کہ لڑائی اپنے ہتھیار رکھ دے یعنی بقول مجاہد رحمہ اللہ عیسیٰ علیہ السلام نازل ہو جائیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:308/11:) ممکن ہے مجاہد رحمہ اللہ کی نظریں اس حدیث پر ہوں جس میں ہے { میری امت ہمیشہ حق کے ساتھ ظاہر رہے گی یہاں تک کہ ان کا آخری شخص دجال سے لڑے گا } ۔۱؎ (سنن ابوداود:2484،قال الشیخ الألبانی:صحیح) مسند احمد اور نسائی میں ہے کہ { سلمہ بن نفیل رضی اللہ عنہ خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے میں نے گھوڑوں کو چھوڑ دیا اور ہتھیار الگ کر دئیے اور لڑائی نے اپنے ہتھیار رکھ دئیے اور میں نے کہہ دیا کہ اب لڑائی ہے ہی نہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اب لڑائی آ گئی ، میری امت میں سے ایک جماعت ہمیشہ لوگوں پر ظاہر رہے گی جن لوگوں کے دل ٹیڑھے ہو جائیں گے ، یہ ان سے لڑیں گے اور اللہ تعالیٰ انہیں ان سے روزیاں دے گا یہاں تک کہ اللہ کا امر آ جائے اور وہ اسی حالت پر ہوں گے مومنوں کی زمین شام میں ہے ۔ گھوڑوں کی ایال میں قیامت تک کے لیے اللہ نے خیر رکھ دی ہے “ } ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:1935،) یہ حدیث امام بغوی رحمہ اللہ نے بھی وارد کی ہے اور حافظ ابو یعلیٰ موصلی رحمہ اللہ نے بھی ، اس سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ جو لوگ اس آیت کو منسوخ نہیں بتاتے گویا کہ یہ حکم مشروع ہے جب تک لڑائی باقی رہے اور اس حدیث نے بتایا کہ لڑائی قیامت تک باقی رہے گی یہ آیت مثل اس آیت کے ہے «قَاتِلُوہُمْ حَتَّیٰ لَا تَکُونَ فِتْنَۃٌ وَیَکُونَ الدِّینُ لِلہِ» ۱؎ (2-البقرۃ:193) ، یعنی ’ ان سے لڑتے رہو جب تک کہ فتنہ باقی ہے اور جب تک کہ دین اللہ ہی کیلئے نہ ہو جائے ‘ ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں لڑائی کے ہتھیار رکھ دینے سے مراد شرک کا باقی نہ رہنا ہے اور بعض سے مروی ہے کہ مراد یہ ہے کہ مشرکین اپنے شرک سے توبہ کر لیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ اپنی کوششیں اللہ کی اطاعت میں صرف کرنے لگ جائیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ اگر اللہ چاہتا تو خود ہی کفار کو برباد کر دیتا اپنے پاس سے ان پر عذاب بھیج دیتا لیکن وہ تو یہ چاہتا ہے کہ تمہیں آزما لے ‘ ، اسی لیے جہاد کے احکام جاری فرمائے ہیں ۔ سورۃ آل عمران اور برأت میں بھی اسی مضمون کو بیان کیا ہے ۔ آل عمران میں ہے «اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جٰہَدُوْا مِنْکُمْ وَیَعْلَمَ الصّٰبِرِیْنَ» ۱؎ (3-آل عمران:142) ’ کیا تمہارا یہ گمان ہے کہ بغیر اس بات کے کہ اللہ جان لے کہ تم میں سے مجاہد کون ہیں اور تم میں سے صبر کرنے والے کون ہیں تم جنت میں چلے جاؤ گے ؟ ‘ ۔ سورۃ براۃ میں ہے «قَاتِلُوْہُمْ یُعَذِّبْہُمُ اللّٰہُ بِاَیْدِیْکُمْ وَیُخْزِہِمْ وَیَنْصُرْکُمْ عَلَیْہِمْ وَیَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مٰؤْمِنِیْنَ وَیُذْہِبْ غَیْظَ قُلُوبِہِمْ وَیَتُوبُ اللہُ عَلَیٰ مَن یَشَاءُ وَ اللہُ عَلِیمٌ حَکِیمٌ» (9-التوبۃ:14-15) ’ ان سے جہاد کرو اللہ تمہارے ہاتھوں انہیں عذاب کرے گا اور تمہیں ان پر نصرت عطا فرمائے گا اور ایمان والوں کے سینے شفاء والے کر دے گا اور اپنے دلوں کے ولولے نکالنے کا انہیں موقعہ دے گا اور جس کی چاہے گا توبہ قبول فرمائے گا اللہ بڑا علیم و حکیم ہے ‘ ۔ اب چونکہ یہ بھی تھا کہ جہاد میں مومن بھی شہید ہوں اس لیے فرماتا ہے «وَالَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللہِ فَلَن یُضِلَّ أَعْمَالَہُمْ» ۱؎ (47-محمد:4) ’ شہیدوں کے اعمال اکارت نہیں جائیں گے بلکہ بہت بڑھا چڑھا کر ثواب انہیں دئیے جائیں گے ‘ ۔ بعض کو تو قیامت تک کے ثواب ملیں گے ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ { شہید کو چھ انعامات حاصل ہوتے ہیں ، اس کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرتے ہی اس کے کل گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔ اسے اس کا جنت کا مکان دکھا دیا جاتا ہے اور نہایت خوبصورت بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں سے اس کا نکاح کرا دیا جاتا ہے وہ بڑی گھبراہٹ سے امن میں رہتا ہے وہ عذاب قبر سے بچا لیا جاتا ہے اسے ایمان کے زیور سے آراستہ کر دیا جاتا ہے } ۔ ایک اور حدیث میں یہ بھی ہے کہ { اس کے سر پر وقار کا تاج رکھا جاتا ہے ۔ جو درو یاقوت کا جڑاؤ ہوتا ہے جس کا ایک یاقوت تمام دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے گراں بہا ہے ۔ اسے بہتر حورعین ملتی ہیں اور اپنے خاندان کے ستر شخصوں کے بارے میں اس کی شفاعت قبول کی جاتی ہے } ۔ یہ حدیث ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی ہے -۱؎ (سنن ترمذی:1663،قال الشیخ الألبانی:صحیح) صحیح مسلم شریف میں ہے { سوائے قرض کے شہیدوں کے سب گناہ بخش دئیے جاتے ہیں } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1886) شہیدوں کے فضائل کی اور بھی بہت حدیثیں ہیں ۔