اللَّهُ الَّذِي سَخَّرَ لَكُمُ الْبَحْرَ لِتَجْرِيَ الْفُلْكُ فِيهِ بِأَمْرِهِ وَلِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
اللہ ہی ہے جس نے سمندر [١٥] کو تمہارے تابع کردیا تاکہ اس کے حکم سے اس میں کشتیاں چلیں۔ اور تم اس کا فضل [١٦] تلاش کرو اور اس کے شکرگزار بنو
اللہ تعالٰی کے ابن آدم پر احسانات اللہ تعالیٰ اپنی نعمتیں بیان فرما رہا ہے کہ اسی کے حکم سے سمندر میں اپنی مرضی کے مطابق سفر طے کرتے ہوئے بڑی بڑی کشتیاں مال اور سواریوں سے لدی ہوئی ادھر سے ادھر لے جاتے ہو تجارتیں اور کمائی کرتے ہو ۔ یہ اس لیے بھی ہے کہ تم اللہ کا شکر بجا لاؤ ، نفع حاصل کر کے رب کا احسان مانو ، پھر اس نے آسمان کی چیز جیسے سورج ، چاند ، ستارے اور زمین کی چیز جیسے پہاڑ ، نہریں اور تمہارے فائدے کی بےشمار چیزیں تمہارے لیے مسخر کر دی ، یہ سب اس کا فضل و احسان انعام و اکرام ہے اور اسی ایک کی طرف سے ہے ۔ جیسے ارشاد ہے «وَمَا بِکُمْ مِّنْ نِّعْمَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ ثُمَّ اِذَا مَسَّکُمُ الضٰرٰ فَاِلَیْہِ تَجْــــَٔــرُوْنَ» ۱؎ (16-النحل:53) ، یعنی ’ تمہارے پاس جو نعمتیں ہیں سب اللہ کی دی ہوئی ہیں اور ابھی بھی سختی کے وقت تم اسی کی طرف گڑگڑاتے ہو ‘ ۔ { سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ہر چیز اللہ ہی کی طرف سے ہے اور یہ نام اس میں نام ہے اس کے ناموں میں سے ، پس یہ سب اس کی جانب سے ہے کوئی نہیں جو اس سے چھینا چھپٹی یا جھگڑا کر سکے ہر ایک اس یقین پر ہے کہ وہ اسی طرح ہے } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:255/11:) { ایک شخص نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سوال کیا کہ ” مخلوق کس چیز سے بنائی گئی ہے ؟ “ آپ نے فرمایا ” نور سے اور آگ سے اور اندھیرے سے اور مٹی سے اور کہا جاؤ ! سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو اگر دیکھو تو ان سے بھی دریافت کر لو “ ۔ اس نے آپ سے بھی پوچھا : یہی جواب پایا ، پھر فرمایا : ” واپس ان کے پاس جاؤ اور پوچھا کہ یہ سب کس چیز سے پیدا کئے گئے ؟ “ ، وہ لوٹا اور سوال کیا تو آپ نے یہی آیت پڑھ کر سنائی } ۔ یہ اثر غریب ہے ۔ اور ساتھ ہی منکر بھی ہے ۔ غور و فکر کی عادت رکھنے والوں کے لیے اس میں بھی بہت نشانیاں ہیں پھر فرماتا ہے کہ صبر و تحمل کی عادت ڈالو منکرین قیامت کی کڑوی کسیلی سن لیا کرو ، مشرک اور اہل کتاب کی ایذاؤں کو برداشت کر لیا کرو ۔ یہ حکم شروع اسلام میں تھا لیکن بعد میں جہاد اور جلا وطنی کے احکام نازل ہوئے ۔ اللہ کے دنوں کی امید نہیں رکھتے ، یعنی اللہ کی نعمتوں کے حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے ۔ پھر فرمایا کہ ان سے تم چشم پوشی کرو ، ان کے اعمال کی سزا خود ہم انہیں دیں گے ، اسی لیے اس کے بعد ہی فرمایا کہ تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے اور ہر نیکی بدی کی جزا سزا پاؤ گے ۔ «وَاللہُ سُبْحَانَہُ وَ تَعَالیٰ اَعْلَمُ»