وَنَادَىٰ فِرْعَوْنُ فِي قَوْمِهِ قَالَ يَا قَوْمِ أَلَيْسَ لِي مُلْكُ مِصْرَ وَهَٰذِهِ الْأَنْهَارُ تَجْرِي مِن تَحْتِي ۖ أَفَلَا تُبْصِرُونَ
اور فرعون نے (ایک دفعہ) اپنی قوم کے درمیان پکار [٥٠] کر کہا : اے میری قوم کیا یہ مصر کی بادشاہی میری نہیں؟ اور یہ نہریں (بھی) جو میرے نیچے بہ رہی ہیں؟ کیا تمہیں نظر نہیں آتا ؟
فرعون کے دعوے فرعون کی سرکشی اور خود بینی بیان ہو رہی ہے کہ اس نے اپنی قوم کو جمع کر کے ان میں بڑی باتیں ہانکنے لگا اور کہا ” کیا میں تنہا ملک مصر کا بادشاہ نہیں ہوں ؟ کیا میرے باغات اور محلات میں نہریں جاری نہیں ؟ کیا تم میری عظمت و سلطنت کو دیکھ نہیں رہے ؟ پھر موسیٰ علیہ السلام اور اس کے ساتھیوں کو دیکھو جو فقراء اور ضعفاء ہیں “ ۔ کلام پاک میں اور جگہ ہے « فَحَشَرَ فَنَادَیٰ فَقَالَ أَنَا رَبٰکُمُ الْأَعْلَیٰ فَأَخَذَہُ اللہُ نَکَالَ الْآخِرَۃِ وَالْأُولَیٰ» ۱؎ (79-النازعات:23-25) یعنی ’ اس نے جمع کر کے سب سے کہا میں تمہارا بلند و بالا رب ہوں جس پر اللہ نے اسے یہاں کے اور وہاں کے عذابوں میں گرفتار کیا ‘ ۔ «اَمْ» معنی میں «بَل ْ» کے ہے ۔ بعض قاریوں کی قرأت « اَمَآ اَناَ» بھی ہے ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر یہ قرأت صحیح ہو جائے تو معنی تو بالکل واضح اور صاف ہو جاتے ہیں لیکن یہ قرأت تمام شہروں کی قرأت کے خلاف ہے سب کی قرأت «اَم ْ» استفہام کا ہے ۔ حاصل یہ ہے کہ ’ فرعون ملعون اپنے آپ کو کلیم اللہ علیہ السلام سے بہتر و برتر بنا رہا ہے اور یہ دراصل اس ملعون کا جھوٹ ہے ‘ ۔ «مُہِیْنٌ» کے معنی حقیر ، ضعیف ، بے مال ، بے شان ۔ پھر کہتا ہے ” موسیٰ [ علیہ السلام ] تو صاف بولنا بھی نہیں جانتا اس کا کلام فصیح نہیں وہ اپنا ما فی الضمیر ادا نہیں کر سکتا “ ۔ بعض کہتے ہیں بچپن میں آپ علیہ السلام نے اپنے منہ میں آگ کا انگارہ رکھ لیا تھا جس کا اثر زبان پر باقی رہ گیا تھا ۔ یہ بھی فرعون کا مکر جھوٹ اور دجل ہے ۔ حضرت موسیٰ صاف گو صحیح کلام کرنے والے ذی عزت بارعب و وقار تھے ۔ لیکن چونکہ ملعون اپنی کفر کی آنکھ سے نبی اللہ علیہ السلام کو دیکھتا تھا اس لیے اسے یہی نظر آتا تھا ۔ حقیقتاً ذلیل و غبی تھا ۔ گو موسیٰ علیہ السلام کی زبان میں بوجہ اس انگارے کے جسے بچپن میں منہ میں رکھ لیا تھا کچھ لکنت تھی لیکن آپ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی اور آپ علیہ السلام کی زبان کی گرہ کھل گئی تاکہ آپ علیہ السلام لوگوں کو باآسانی اپنا مدعا سمجھا سکیں ۔ اور اگر مان لیا جائے کہ تاہم کچھ باقی رہ گئی تھی کیونکہ دعاء کلیم میں اتنا ہی تھا کہ ’ میری زبان کی اس قدر گرہ کھل جائے کہ لوگ میری بات سمجھ لیں ۔ ‘ ، تو یہ بھی کوئی عیب کی بات نہیں اللہ تعالیٰ نے جس کسی کو جیسا بنا دیا وہ ویسا ہی ہے اس میں عیب کی کون سی بات ہے ؟ دراصل فرعون ایک کلام بنا کر ایک مسودہ گھڑ کر اپنی جاہل رعایا کو بھڑکانا اور بہکانا چاہتا تھا ۔ دیکھئیے وہ آگے چل کر کہتا ہے کہ ” کیوں جی اس پر آسمان سے ہن [ دولت ] کیوں نہیں برستا مالداری تو اسے اتنی ہونی چاہیئے کہ ہاتھ سونے سے پر ہوں لیکن یہ محض مفلس ہے اچھا یہ بھی نہیں تو اللہ اس کے ساتھ فرشتے ہی کر دیتا جو کم از کم ہمیں باور کرا دیتے کہ یہ اللہ کے نبی ہیں “ ۔ غرض ہزار جتن کر کے لوگوں کو بیوقوف بنا لیا اور انہیں اپنا ہم خیال اور ہم سخن کر لیا ۔ یہ خود فاسق فاجر تھے ۔ فسق و فجور کی پکار پر فوراً ریجھ گئے پس جب ان کا پیمانہ چھلک گیا اور انہوں نے دل کھول کر رب کی نافرمانی کر اور رب کو خوب ناراض کر دیا تو پھر اللہ کا کوڑا ان کی پیٹھ پر برسا اور اگلے پچھلے سارے کرتوت پکڑ لیے گئے یہاں ایک ساتھ پانی میں غرق کر دئیے گئے وہاں جہنم میں جلتے جھلستے رہیں گے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { جب کسی انسان کو اللہ دنیا دیتا چلا جائے اور وہ اللہ کی نافرمانیوں پر جما ہوا ہو تو سمجھ لو کہ اللہ نے اسے ڈھیل دے رکھی ہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی } ۔ (ابن ابی حاتم:ضعیف) حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے سامنے جب اچانک موت کا ذکر آیا تو فرمایا ” ایماندار پر تو یہ تخفیف ہے اور کافر پر حسرت ہے ۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے اسی آیت کو پڑھ کر سنایا “ ۔ ۱؎ (الدرالمنشور للسیوطی:384/7) عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” انتقام غفلت کے ساتھ ہے “ ۔ پھر اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ ہم نے انہیں نمونہ بنا دیا کہ ان کے سے کام کرنے والے ان کے انجام کو دیکھ لیں اور یہ مثال یعنی باعث عبرت بن جائے کہ ان کے بعد آنے والے ان کے واقعات پر غور کریں اور اپنا بچاؤ ڈھونڈیں ‘ ۔ «وَاللہُ سُبْحَانَہُ وَ تَعَالیٰ الْمُوَفِّق لِلصَّوَابِ وَإِلَیْہِ الْمَرْجِع وَالْمَآب»