وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ إِنَّنِي بَرَاءٌ مِّمَّا تَعْبُدُونَ
اور (وہ وقت یاد کرو) جب ابراہیم نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا : جن کی تم بندگی کرتے ہو، میں [٢٤] ان سے قطعاً بیزار ہوں
امام الموحدین کا ذکر اور دنیا کی قیمت قریشی کفار نسب اور دین کے اعتبار سے چونکہ خلیل اللہ امام الحنفاء سیدنا ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے سنت ابراہیمی ان کے سامنے رکھی کہ دیکھو جو اپنے بندے آنے والے تمام نبیوں کے باپ ، اللہ کے رسول امام الموحدین تھے انہوں نے کھلے لفظوں میں نہ صرف اپنی قوم سے بلکہ اپنے سگے باپ سے بھی کہہ دیا کہ مجھ میں تم میں کوئی تعلق نہیں ۔ میں سوائے اپنے سچے اللہ کے جو میرا خالق اور ہادی ہے تمہارے ان معبودوں سے بیزار ہوں سب سے بے تعلق ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی اس جرأت ‘ حق گوئی اور جوش توحید کا بدلہ یہ دیا کہ کلمہ توحید کو ان کی اولاد میں ہمیشہ کے لیے باقی رکھ لیا ۔ ناممکن ہے کہ آپ علیہ السلام کی اولاد میں اس پاک کلمے کے قائل نہ ہوں ۔ انہی کی اولاد اس توحید کلمہ کی اشاعت کرے گی اور سعید روحیں اور نیک نصیب لوگ اسی گھرانے سے توحید سیکھیں گے ۔ غرض اسلام اور توحید کا معلم یہ گھرانہ قرار پا گیا ۔ پھر فرماتا ہے بات یہ ہے کہ یہ کفار کفر کرتے رہے اور میں انہیں متاع دنیا دیتا رہا یہ اور بہکتے گئے اور اس قدر بد مست بن گئے کہ جب ان کے پاس دین حق اور رسول حق آئے تو انہوں نے جھٹلانا شروع کر دیا کہ کلام اللہ اور معجزات انبیاء علیہم السلام جادو ہیں اور ہم ان کے منکر ہیں ۔ سرکشی اور ضد میں آ کر کفر کر بیٹھے ۔ عناد اور بغض سے حق کے مقابلے پر اتر آئے اور باتیں بنانے لگے کہ کیوں صاحب اگر یہ قرآن سچ مچ اللہ ہی کا کلام ہے تو پھر مکے اور طائف کے کسی رئیس پر ‘ کسی بڑے آدمی پر‘ کسی دنیوی وجاہت والے پر کیوں نہ اترا ؟ اور بڑے آدمی سے ان کی مراد ولید بن مغیرہ ، عروہ بن مسعود ، عمیر بن عمرو ، عتبہ بن ربیعہ ، حبیب بن عمرو ابن عبد یا لیل ، کنانہ بن عمرو وغیرہ سے تھی ۔ غرض یہ تھی کہ ان دونوں بستیوں میں سے کسی بڑے مرتبے کے آدمی پر قرآن نازل ہونا چاہیئے تھا ۔