سورة الزمر - آیت 24

أَفَمَن يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذَابِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ وَقِيلَ لِلظَّالِمِينَ ذُوقُوا مَا كُنتُمْ تَكْسِبُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

پھر جو شخص قیامت کے دن کے سخت [٤٠] عذاب کو اپنے چہرے پر روکے گا (اس کی بے بسی کا کچھ اندازہ ہوسکتا ہے؟) اور ظالموں سے کہا جائے گا کہ اپنی ان کرتوتوں کا مزا چکھو جو تم کیا کرتے تھے۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

روزِ قیامت کا احوال ایک وہ جسے اس ہنگامہ خیز دن میں امن و امان حاصل ہو اور ایک وہ جسے اپنے منہ پر عذاب کے تھپڑ کھانے پڑتے ہوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ جیسے فرمایا «أَفَمَن یَمْشِی مُکِبًّا عَلَیٰ وَجْہِہِ أَہْدَیٰ أَمَّن یَمْشِی سَوِیًّا عَلَیٰ صِرَاطٍ مٰسْتَقِیمٍ» ۱؎ (67-الملک:22) ’ اوندھے منہ ، منہ کے بل چلنے والا اور راست قامت اپنے پیروں سیدھی راہ چلتے والا برابر نہیں ‘ ۔ «یَوْمَ یُسْحَبُونَ فِی النَّارِ عَلَیٰ وُجُوہِہِمْ ذُوقُوا مَسَّ سَقَرَ » ۱؎ (54-القمر:48) ’ ان کفار کو تو قیامت کے دن اوندھے منہ گھسیٹا جائے گا اور کہا جائے گا کہ آگ کا مزہ چکھو ‘ ۔ ایک اور آیت میں ہے «أَفَمَن یُلْقَیٰ فِی النَّارِ خَیْرٌ أَم مَّن یَأْتِی آمِنًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ» ۱؎ (41-فصلت:40) ’ جہنم میں داخل کیا جانے والا بدنصیب اچھا یا امن و امان سے قیامت کا دن گذارنے والا اچھا ؟ ‘ یہاں اس آیت کا مطلب یہی ہے لیکن ایک قسم کا ذکر کر کے دوسری قسم کے بیان کو چھوڑ دیا کیونکہ اسی سے وہ بھی سمجھ لیا جاتا ہے یہ بات شعراء کے کلام میں برابر پائی جاتی ہے ۔ اگلے لوگوں نے بھی اللہ کی باتوں کو نہ مانا تھا اور رسولوں کو جھوٹا کہا تھا پھر دیکھو کہ ان پر کس طرح ان کی بے خبری میں مار پڑی ؟ عذاب اللہ نے انہیں دنیا میں بھی ذلیل و خوار کیا اور آخرت کے سخت عذاب بھی ان کے لیے باقی ہیں ۔ ’ پس تمہیں ڈرتے رہنا چاہیئے کہ اشرف رسل صلی اللہ علیہ وسلم کے ستانے اور نہ ماننے کی وجہ سے تم پر کہیں ان سے بھی بدتر عذاب برس نہ پڑیں ۔ تم اگر ذی علم ہو تو ان کے حالات اور تذکرے تمہاری نصیحت کے لیے کافی ہیں ‘ ۔