اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ هُدَى اللَّهِ يَهْدِي بِهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ
اللہ نے بہترین کلام نازل [٣٦] کیا جو ایسی کتاب ہے جس کے مضامین ملتے جلتے [٣٧] اور بار بار دہرائے [٣٨] جاتے ہیں۔ جن سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں پھر ان کی جلدیں اور ان کے دل نرم ہو کر اللہ کے ذکر کی طرف راغب [٣٩] ہوجاتے ہیں۔ یہی اللہ کی ہدایت ہے، وہ جسے چاہتا ہے۔ اس (قرآن) کے ذریعہ راہ راست پر لے آتا ہے اور جسے اللہ گمراہ کر دے اسے کوئی راہ پر لانے والا نہیں۔
قرآن حکیم کی تاثیر اللہ تعالیٰ اپنی اس کتاب قرآن کریم کی تعریف میں فرماتا ہے کہ ’ اس بہترین کتاب کو اس نے نازل فرمایا ہے جو سب کی سب متشابہ ہیں اور جس کی آیتیں مکرر ہیں تاکہ فہم سے قریب تر ہو جائے ‘ ۔ ایک آیت دوسری کے مشابہ اور ایک حرف دوسرے سے ملتا جلتا ۔ اس سورت کی آیتیں اس سورت سے اور اس کی اس سے ملی جلی ۔ ایک ایک ذکر کئی کئی جگہ اور پھر بے اختلاف بعض آیتیں ایک ہی بیان میں بعض میں جو مذکور ہے اس کی ضد کا ذکر بھی انہیں کے ساتھ ہے مثلاً مومنوں کے ذکر کے ساتھ ہی کافروں کا ذکر ، جنت کے ساتھ ہی دوزخ کا بیان وغیرہ ۔ دیکھئیے ابرار کے ذکر کے ساتھ ہی فجار کا بیان ہے « إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِی نَعِیمٍ وَإِنَّ الْفُجَّارَ لَفِی جَحِیمٍ » (82-الانفطار:14،13) ۔ سجین کے ساتھ ہی علیین کا بیان ہے «کَلَّا إِنَّ کِتَابَ الْفُجَّارِ لَفِی سِجِّینٍ » ۱؎ (83-المطففین:7) «کَلَّا إِنَّ کِتَابَ الْأَبْرَارِ لَفِی عِلِّیِّینَ» ۱؎ (83-المطففین:18) ۔ متقین کے ساتھ ہی طاعین کا بیان ہے «ہٰذَا ذِکْرٌ وَإِنَّ لِلْمُتَّقِینَ لَحُسْنَ مَآبٍ» ۱؎ (38-ص:49) «ہٰذَا وَإِنَّ لِلطَّاغِینَ لَشَرَّ مَآبٍ» ۱؎ (38-ص:55)۔ ذکر جنت کے ساتھ ہی تذکرہ جہنم ہے ۔ یعنی معنی ہیں مثانی کے اور متشابہ ان آیتوں کو کہتے ہیں وہ تو یہ ہے اور «ھُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ مِنْہُ اٰیٰتٌ مٰحْکَمٰتٌ ھُنَّ اُمٰ الْکِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ» ۱؎ (3-آل عمران:7) میں اور ہی معنی ہیں ۔ اس کی پاک اور بااثر آیتوں کا مومنوں کے دل پر نور پڑتا ہے وہ انہیں سنتے ہی خوفزدہ ہو جاتے ہیں سزاؤں اور دھمکیوں کو سن کر ان کا کلیجہ کپکپانے لگتا ہے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور انتہائی عاجزی اور بہت ہی بڑی گریہ و زاری سے ان کے دل اللہ کی طرف جھک جاتے ہیں اس کی رحمت و لطف پر نظریں ڈال کر امیدیں بندھ جاتی ہیں ۔ ان کا حال سیاہ دلوں سے بالکل جداگانہ ہے ۔ یہ رب کے کلام کو نیکیوں سے سنتے ہیں ۔ وہ گانے بجانے پر سر دھنستے ہیں ۔ یہ آیات قرآنی سے ایمان میں بڑھتے ہیں ۔ وہ انہیں سن کر اور کفر کے زینے پر چڑھتے ہیں یہ روتے ہوئے سجدوں میں گر پڑتے ہیں ۔ وہ مذاق اڑاتے ہوئے اکڑتے ہیں ۔ فرمان قرآن ہے «اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُہُمْ وَاِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَتْہُمْ اِیْمَانًا وَّعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ» ۱؎ (8-الانفال:4-2) ، یعنی ’ یاد الٰہی مومنوں کے دلوں کو دہلا دیتی ہے ، وہ ایمان و توکل میں بڑھ جاتے ہیں ، نماز و زکوٰۃ و خیرات کا خیال رکھتے ہیں ، سچے با ایمان یہی ہیں ، درجے ، مغفرت اور بہترین روزیاں یہی پائیں گے ‘ ۔ اور آیت میں ہے « وَالَّذِینَ إِذَا ذُکِّرُوا بِآیَاتِ رَبِّہِمْ لَمْ یَخِرٰوا عَلَیْہَا صُمًّا وَعُمْیَانًا» ۱؎ (25-الفرقان:73) یعنی ’ بھلے لوگ آیات قرآنیہ کو بہروں اندھوں کی طرح نہیں سنتے پڑھتے کہ ان کی طرف نہ تو صحیح توجہ ہو نہ ارادہ عمل ہو بلکہ یہ کان لگا کر سنتے ہیں دل لگا کر سمجھتے ہیں غور و فکر سے معانی اور مطلب تک رسائی حاصل کرتے ہیں ‘ ۔ اب توفیق ہاتھ آتی ہے سجدے میں گر پڑتے ہیں اور تعمیل کے لیے کمربستہ ہو جاتے ہیں ۔ یہ خود اپنی سمجھ سے کام کرنے والے ہوتے ہیں دوسروں کی دیکھا دیکھی جہالت کے پیچھے پڑے نہیں رہتے ۔ تیسرا وصف ان میں برخلاف دوسروں کے یہ ہے کہ قرآن کے سننے کے وقت با ادب رہتے ہیں ۔ حضور علیہ السلام کی تلاوت سن کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے جسم و روح ذکر اللہ کی طرف جھک آتے تھے ان میں خشوع و خضوع پیدا ہو جاتا تھا لیکن یہ نہ تھا کہ چیخنے چلانے اور ہاہڑک کرنے لگیں اور اپنی صوفیت جتائیں بلکہ ثبات سکون ادب اور خشیت کے ساتھ کلام اللہ سنتے دل جمعی اور سکون حاصل کرتے اسی وجہ سے مستحق تعریف اور سزاوار توصیف ہوئے رضی اللہ عنہم ۔ عبدالرزاق میں ہے کہ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” اولیاء اللہ کی صفت یہی ہے کہ قرآن سن کر ان کے دل موم ہو جائیں اور ذکر اللہ کی طرف وہ جھک جائیں ان کے دل ڈر جائیں ان کی آنکھیں آنسو بہائیں اور طبیعت میں سکون پیدا ہو جائے ۔ یہ نہیں کہ عقل جاتی رہے حالت طاری ہو جائے ۔ نیک و بد کا ہوش نہ رہے ۔ یہ بدعتیوں کے افعال ہیں کہ ہا ہو کرنے لگتے ہیں اور کودتے اچھلتے اور پکڑے پھاڑتے ہیں یہ شیطانی حرکت ہے ۔ ذکر اللہ سے مراد وعدہ اللہ بھی بیان کیا گیا ہے “ ۔ پھر فرماتا ہے ’ یہ ہیں صفتیں ان لوگوں کی جنہیں اللہ نے ہدایت دی ہے ۔ ان کے خلاف جنہیں پاؤ سمجھ لو کہ اللہ نے انہیں گمراہ کر دیا ہے اور یقین رکھو کہ رب جنہیں ہدایت دینا چاہیئے انہیں کوئی راہ راست نہیں دکھا سکتا ‘ ۔