وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ نَارُ جَهَنَّمَ لَا يُقْضَىٰ عَلَيْهِمْ فَيَمُوتُوا وَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُم مِّنْ عَذَابِهَا ۚ كَذَٰلِكَ نَجْزِي كُلَّ كَفُورٍ
اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے لئے جہنم کی آگ ہے۔ نہ تو ان کا قصہ پاک کیا جائے گا کہ وہ مرجائیں [٤٠] اور نہ ہی ان سے جہنم کا عذاب ہلکا کیا جائے گا۔ ہم ہر ناشکرے کو ایسے ہی سزا دیا کرتے ہیں۔
برے لوگوں کا روح فرسا حال نیک لوگوں کا حال بیان فرما کر اب برے لوگوں کا حال بیان ہو رہا ہے کہ یہ دوزخ کی آگ میں جلتے جھلستے رہیں گے۔ انہیں وہاں موت بھی نہیں آئے گی جو مر جائیں۔ جیسے اور آیت میں ہے «ثُمَّ لَا یَمُوْتُ فِیْہَا وَلَا یَحْیٰی» ۱؎ (87-الأعلی:13) نہ وہاں انہیں موت آئے گی نہ کوئی اچھی زندگی ہو گی۔ صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ جوابدی جہنمی ہیں انہیں وہاں موت نہیں آئے گی اور نہ اچھائی کی زندگی ملے گی۔ ۱؎(صحیح مسلم:185) وَنادَوا یا مالِکُ لِیَقضِ عَلَینا رَبٰکَ قالَ إِنَّکُم ماکِثونَ وہ تو کہیں گے کہ اے داروغہ جہنم تم ہی اللہ سے دعا کرو کہ اللہ ہمیں موت دیدے لیکن جواب ملے گا کہ تم تو یہیں پڑے رہو گے۔۱؎ (43-الزخرف:77) پس وہ موت کو اپنے لیے رحمت سمجھیں گے لیکن وہ آئے گی ہی نہیں۔ نہ مریں نہ عذابوں میں کمی دیکھیں۔ جیسے اور آیت میں ہے«اِنَّ الْمُجْرِمِیْنَ فِیْ عَذَابِ جَہَنَّمَ خٰلِدُوْنَ۔ لَا یُفَتَّرُ عَنْہُمْ وَہُمْ فِیہِ مُبْلِسُونَ» ۱؎ (43-الزخرف:-7574) یعنی کفار دائماً عذاب جہنم میں رہیں گے جو عذاب کبھی بھی نہ ہٹیں گے نہ کم ہوں گے۔ یہ تمام بھلائی سے محض مایوس ہوں گے اور جگہ فرمان ہے «کُلَّمَا خَبَتْ زِدْنٰہُمْ سَعِیْرًا» (17-الإسراء:79)۱؎ آگ جہنم ہمیشہ تیز ہوتی رہے گی۔ فرماتا ہے «فَذُوْقُوْا فَلَنْ نَّزِیْدَکُمْ اِلَّا عَذَابًا» ۱؎ (78-النبأ:30) لو اب مزے چکھو، عذاب ہی عذاب تمہارے لیے بڑھتے رہیں گے۔ کافروں کا یہی بدلہ ہے، وہ چیخ و پکار کریں گے ہائے وائے کریں گے دنیا کی طرف لوٹنا چاہیں گے اقرار کریں گے کہ ہم گناہ نہیں کریں گے نیکیاں کریں گے۔ لیکن رب العالمین خوب جانتا ہے کہ اگر یہ واپس بھی جائیں گے تو وہی سرکشی کریں گے اسی لیے ان کا یہ ارمان پورا نہ ہو گا۔ جیسے اور جگہ فرمایا کہ انہیں ان کے اس سوال پر جواب ملے گا کہ تم تو وہی ہو کہ جب اللہ کی وحدانیت کا بیان ہوتا تھا تو تم کفر کرنے لگتے تھے وہاں اس کے ساتھ شرک کرنے میں تمہیں مزہ آتا تھا۔ پس اب بھی اگر تمہیں لوٹا دیا گیا تو وہی کرو گے جس سے ممانعت کئے جاتے ہو۔ پس فرمایا انہیں کہا جائے گا کہ دنیا میں تو تم بہت جئے، تم اس لمبی مدت میں بہت کچھ کر سکتے تھے مثلاً سترہ سال جئے۔ قتادہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ لمبی عمر میں بھی اللہ کی طرف سے حجت پوری کرنا ہے۔ اللہ سے پناہ مانگنی چاہیئے کہ عمر کے بڑھنے کے ساتھ ہی انسان برائیوں میں بڑھتا چلا جائے دیکھو تو یہ آیت جب اتری ہے اس وقت بعض لوگ صرف اٹھارہ سال کی عمر کے ہی تھے۔ وہب بن منبہ فرماتے ہیں مراد بیس سال کی عمر ہے۔ حسن فرماتے ہیں چالیس سال۔ مسروق فرماتے ہیں چالیس سال کی عمر میں انسان کو ہوشیار ہو جانا چاہیئے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اس عمر تک پہنچنا اللہ کی طرف سے عذر بندی ہو جاتا ہے۔ آپ ہی سے ساٹھ سال بھی مروی ہیں اور یہی زیادہ صحیح بھی ہے۔ جیسے ایک حدیث میں بھی ہے گو امام ابن جریر رحمہ اللہ اس کی سند میں کلام کرتے ہیں لیکن وہ کلام ٹھیک نہیں۔ علی رضی اللہ عنہ سے بھی ساٹھ سال ہی مروی ہیں۔ سید ناابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں قیامت کے دن ایک منادی یہ بھی ہو گی کہ ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ جانے والے کہاں ہیں؟ لیکن اس کی سند ٹھیک نہیں۔ مسند میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ساٹھ سال یا سترسال کی عمر کو پہنچا دیا اس کا کوئی عذر پھر اللہ کے ہاں نہیں چلنے کا۔ ۱؎ (مسند احمد: 275/6:صحیح) صحیح بخاری کتاب الرقاق میں ہے اس شخص کا عذر اللہ نے کاٹ دیا جسے ساٹھ سال تک دنیا میں رکھا۔۱؎ (صحیح بخاری:6419) اس حدیث کی اور سندیں بھی ہیں لیکن اگر نہ بھی ہوتیں تو بھی صرف امام بخاری رحمہ اللہ کا اسے اپنی صحیح میں وارد کرنا ہی اس کی صحت کا ثبوت تھا۔ ابن جریر رحمہ اللہ کا یہ کہنا کہ اس کی سند کی جانچ کی ضرورت ہے امام بخاری رحمہ اللہ کے صحیح کہنے کے مقابلے میں ایک جو کی بھی قیمت نہیں رکھتا۔ واللہ اعلم، بعض لوگ کہتے ہیں اطباء کے نزدیک طبعی عمر ایک سو بیس برس کی ہے ساٹھ سال تک تو انسان بڑھوتری میں رہتا ہے۔ پھر گھٹنا شروع ہو جاتا ہے۔ پس آیت میں بھی اسی عمر کو مراد لینا اچھا ہے اور یہی اس امت کی غالب عمر ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں ہے میری امت کی عمریں ساٹھ سے ستر سال تک ہیں اور اس سے تجاوز کرنے والے کم ہیں۔۱؎ (سنن ترمذی:3550،قال الشیخ الألبانی:حسن) (ترمذی وغیرہ) امام ترمذی رحمہ اللہ تو اس حدیث کی نسبت فرماتے ہیں اس کی اور کوئی سند نہیں لیکن تعجب ہے کہ امام صاحب نے یہ کیسے فرما دیا؟ اس کی ایک دوسری سند ابن ابی الدنیا میں موجود ہے۔ خود ترمذی میں بھی یہی حدیث دوسری سند سے کتاب الزہد میں مروی ہے۔ ایک اور ضعیف حدیث میں ہے میری امت میں ستر سال کی عمر والے بھی کم ہوں گے ۱؎(مسند ابویعلی:6544:ضعیف) اور روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی امت کی عمر کی بابت سوال ہوا تو آپ نے فرمایا پچاس سے ساٹھ سال تک کی عمر ہے پوچھا گیا ستر سال کی عمر والے؟ فرمایا بہت کم اللہ ان پر اور اسی سال والوں پر اپنا رحم فرمائے۔ ۱؎ (مسند بزار:3586:ضعیف) (بزار) اس حدیث کا ایک راوی عثمان بن مطر قوی نہیں۔ صحیح حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر تریسٹھ سال کی تھی ۱؎(صحیح بخاری:3536) ایک قول ہے کہ ساٹھ سال کی تھی۱؎ (صحیح بخاری5900:) یہ بھی کہا گیا ہے کہ پینسٹھ برس کی تھی۔ (صحیح مسلم:2352) واللہ اعلم۔ (تطبیق یہ ہے کہ ساٹھ سال کہنے والے راوی دہائیوں کو لگاتے ہیں اکائیوں کو چھوڑ دیتے ہیں پینسٹھ سال والے سال تولد اور سال وفات کو بھی گنتے ہیں اور تریسٹھ والے ان دونوں برسوں کو نہیں لگاتے۔ پس کوئی اختلاف نہیں فالحمداللہ۔ مترجم) اور تمہارے پاس ڈرانے والے آ گئے یعنی سفید بال۔ یا خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ زیادہ صحیح قول دوسرا ہی ہے جیسے فرمان ہے «ہٰذَا نَذِیرٌ مِّنَ النٰذُرِ الْأُولَیٰ» ( ۱؎ (53-النجم:56) یہ پیغمبر نذیر ہیں۔ پس عمر دے کر، رسول بھیج کر اپنی حجت پوری کر دی۔ چنانچہ قیامت کے دن بھی جب دوزخی تمنائے موت کریں گے تو یہی جواب ملے گا کہ تمہارے پاس حق آ چکا تھا یعنی رسولوں کی زبانی ہم پیغام حق تمہیں پہنچا چکے تھے لیکن تم نہ مانے اور آیت میں ہے «وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا» ۱؎ (17-الإسراء:15) ہم جب تک رسول نہ بھیج دیں عذاب نہیں کرتے۔ سورۃ تبارک الذی۱؎ میں فرمان جب جہنمی جہنم میں ڈالے جائیں گے وہاں کے داروغے ان سے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس ڈرانے والے نہیں آئے تھے؟ یہ جواب دیں گے کہ ہاں آئے تھے لیکن ہم نے انہیں نہ مانا، انہیں جھوٹا جانا اور کہہ دیا کہ اللہ نے تو کوئی کتاب وغیرہ نازل نہیں فرمائی۔ (67-الملک:-98) تم یونہی بک رہے ہو، پس آج قیامت کے دن ان سے کہہ دیا جائے گا کہ نبیوں کی مخالفت کا مزہ چکھو مدت العمر انہیں جھٹلاتے رہے اب آج اپنے اعمال کے بدلے اٹھاؤ اور سن لو کوئی نہ کھڑا ہو گا جو تمہارے کام آ سکے تمہاری کچھ مدد کر سکے اور عذابوں سے بچا سکے یا چھڑا سکے۔