وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَأْتِينَا السَّاعَةُ ۖ قُلْ بَلَىٰ وَرَبِّي لَتَأْتِيَنَّكُمْ عَالِمِ الْغَيْبِ ۖ لَا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَلَا أَصْغَرُ مِن ذَٰلِكَ وَلَا أَكْبَرُ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ
کافر کہتے ہیں کہ ’’ہم پر قیامت نہیں آئے گی‘‘ آپ ان سے کہئے کہ : کیوں نہیں آئے گی، میرے پروردگار کی قسم! وہ تم پر آکے رہے گی۔ (اس پروردگار کی قسم) جو غیب [٥] کا جاننے والا ہے۔ اس سے آسمانوں اور زمین میں کوئی ذرہ بھر چیز بھی چھپی نہیں رہ سکتی۔ اور ذرہ سے چھوٹی یا بڑی کوئی چیز ایسی [٦] نہیں جو واضح کتاب میں درج نہ ہو۔
قیامت آ کر رہے گی پورے قرآن میں تین آیتیں ہیں جہاں قیامت کے آنے پر قسم کھا کر بیان فرمایا گیا ہے ۔ ایک تو سورۃ یونس میں «وَیَسْتَنْۢبِـــُٔـوْنَکَ اَحَقٌّ ھُوَ ڼ قُلْ اِیْ وَرَبِّیْٓ اِنَّہٗ لَحَقٌّ ې وَمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ» ۱؎ (10-یونس:53) ’ لوگ تجھ سے دریافت کرتے ہیں کہ کیا قیامت کا آنا حق ہے ؟ تو کہہ دے کہ ہاں ہاں میرے رب کی قسم وہ یقیناً حق ہی ہے اور تم اللہ کو مغلوب نہیں کر سکتے ‘ دوسری آیت یہی ۔ تیسری آیت سورۃ التغابن میں «زَعَمَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَنْ لَّنْ یٰبْعَثُوْا ۭ قُلْ بَلٰی وَرَبِّیْ لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُـنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ ۭ وَذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌ» ۱؎ (64-التغابن:7) یعنی ’ کفار کا خیال ہے کہ وہ قیامت کے دن اٹھائے نہ جائیں گے ۔ تو کہہ دے کہ ہاں میرے رب کی قسم تم ضرور اٹھائے جاؤ گے ‘ ’ پھر اپنے اعمال کی خبر دیئے جاؤ گے اور یہ تو اللہ پر بالکل ہی آسان ہے ۔ ‘ پس یہاں بھی کافروں کا انکار قیامت کا ذکر کر کے اپنے نبی کو ان کے بارے قسمیہ بتا کر پھر اس کی مزید تاکید کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ وہ اللہ جو عالم الغیب ہے جس سے کوئی ذرہ پوشیدہ نہیں سب اس کے علم میں ہے ۔ گو ہڈیاں سڑ گل جائیں ان کے ریزے متفرق ہو جائیں لیکن وہ کہاں ہیں ؟ کتنے ہیں ؟ سب وہ جانتا ہے وہ ان سب کو جمع کرنے پر قادر ہے ۔ جیسے کہ پہلے انہیں پیدا کیا ۔ وہ ہر چیز کا جاننے والا ہے ۔ اور تمام چیزیں اس کے پاس اس کی کتاب میں بھی لکھی ہوئی ہیں ۔ پھر قیامت کے آنے کی حکمت بیان فرمائی کہ ایمان والوں کو ان کی نیکیوں کا بدلہ ملے گا ۔ وہ مغفرت اور رزق کریم سے نوازے جائیں اور جنہوں نے اللہ کی باتوں سے ضد کی ، رسولوں کی نہ مانی انہیں بدترین اور سخت سزائیں ہوں ۔ نیک کار مومن جزا اور بدکار سزا پائیں گے ۔ جیسے فرمایا جہنمی اور جنتی برابر نہیں ۔ جنتی کامیاب اور مقصد پانے والے ہیں ۔ ۱؎ (59-الحشر:20) اور آیت میں ہے «اَمْ نَجْعَلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کَالْمُفْسِدِیْنَ فِی الْاَرْضِ ۡ اَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِیْنَ کَالْفُجَّارِ» ۱؎ (38-ص:28) ، یعنی ’ مومن اور مفسد متقی اور فاجر برابر نہیں ۔ ‘ پھر قیامت کی ایک اور حکمت بیان فرمائی کہ ایماندار بھی قیامت کے دن جب نیکوں کو جزا اور بدوں کو سزا ہوتے ہوئے دیکھیں گے تو وہ علم الیقین سے عین الیقین حاصل کر لیں گے اور اس وقت کہہ اٹھیں گے کہ ہمارے رب کے رسول ہمارے پاس حق لائے تھے ۔ اور اس وقت کہا جائے گا کہ یہ ہے جس کا وعدہ رحمان نے دیا تھا ۔ اور رسولوں نے سچ سچ کہہ دیا تھا ۔ اللہ نے تو لکھ دیا تھا کہ تم قیامت تک رہو گے تو اب قیامت کا دن آ چکا ہے ۔ وہ اللہ عزیز ہے یعنی بلند جناب والا بڑی سرکار والا ہے ۔ بہت عزت والا ہے پورے غلبے والا ہے نہ اس پر کسی کا بس نہ کسی کا زور ۔ ہر چیز اس کے سامنے پست و عاجز ۔ وہ قابل تعریف ہے اپنے اقوال و افعال شرع و فعل میں ۔ ان تمام میں اس کی ساری مخلوق اس کی ثنا خواں ہے ۔ «جل و علا» ۔