وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَلَا تَكُن فِي مِرْيَةٍ مِّن لِّقَائِهِ ۖ وَجَعَلْنَاهُ هُدًى لِّبَنِي إِسْرَائِيلَ
ہم نے موسیٰ کو کتاب [٢٤] دی تھی لہٰذا (اے نبی!) آپ کو اس کتاب کے ملنے [٢٥] میں شک نہ رہنا چاہئے۔ یہ کتاب بنی اسرائیل کے لئے ہدایت تھی
شب معراج اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتا ہے ’ ہم نے موسیٰ کو کتاب تورات دی تو اس کی ملاقات کے بارے میں شک و شبہ میں نہ رہ ‘ ۔ قتادۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” یعنی معراج والی رات میں “ ۔ حدیث میں ہے { میں نے معراج والی رات سیدنا موسیٰ بن عمران علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ گندم گوں رنگ کے لانبے قد کے گھونگھریالے بالوں والے تھے ایسے جیسے قبیلہ شنواہ کے آدمی ہوتے ہیں ۔ اسی رات میں نے عیسیٰ علیہ السلام کو بھی دیکھا وہ درمیانہ قد کے سرخ و سفید تھے سیدھے بال تھے ۔ میں نے اسی رات مالک کو دیکھا جو جہنم کے داروغہ ہیں اور دجال کو دیکھا یہ سب ان نشانیوں میں سے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھائیں } پس ’ اس کی ملاقات میں شک و شبہ نہ کر ‘ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یقیناً موسیٰ کو دیکھا اور ان سے ملے جس رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کرائی گئی ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:28299:) ’ موسیٰ علیہ السلام کو ہم نے بنی اسرائیل کا ہادی بنا دیا ‘ ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ’ اس کتاب کے ذریعہ ہم نے اسرائیلیوں کو ہدایت دی ‘ ۔ جیسے سورۃ بنی اسرائیل میں ہے آیت «وَاٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ وَجَعَلْنٰہُ ہُدًی لِّبَنِیْٓ اِسْرَاءِیْلَ اَلَّا تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِیْ وَکِیْلًا» ۱؎ (17-الإسراء:2) ، یعنی ’ ہم نے موسیٰ [ علیہ السلام ] کو کتاب دی اور بنی اسرائیل کے لیے ہادی بنا دیا کہ تم میرے سوا کسی کو کار ساز نہ سمجھو ‘ ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ چونکہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری اس کی نافرمانیوں کے ترک اس کی باتوں کی تصدیق اور اس کے رسولوں کی اتباع وصبر میں جمے رہے ہم نے ان میں سے بعض کو ہدایت کے پیشوا بنا دیا جو اللہ کے احکام لوگوں کو پہنچاتے ہیں بھلائی کی طرف بلاتے ہیں برائیوں سے روکتے ہیں ‘ ۔ لیکن جب ان کی حالت بدل گئی انہوں نے کلام اللہ میں تبدیلی تحریف تاویل شروع کر دی تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان سے یہ منصب چھین لیا ان کے دل سخت کر دئیے عمل صالح اور اعتقاد صحیح ان سے دور ہوگیا ۔ پہلے تو یہ دنیا سے بچے ہوئے تھے ۔ سفیان رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” یہ لوگ پہلے ایسے ہی تھے لہٰذا انسان کے لیے ضروری ہے کہ اس کا کوئی پیشوا ہو جس کی یہ اقتداء کرکے دنیا سے بچا ہوا رہے “ ۔ آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” دین کے لیے علم ضروری ہے جیسے جسم کے لیے غذا ضروری ہے “ ۔ سفیان رحمہ اللہ سے علی رضی اللہ عنہ کے اس قول کے بارے میں سوال ہوا کہ ” صبر کی وجہ سے ان کو ایسا پیشوا بنا دیا کہ وہ ہمارے حکم کی ہدایت کرتے تھے “ ۔ آپ رحمہ اللہ نے فرمایا مطلب یہ ہے کہ ” چونکہ انہوں نے تمام کاموں کو اپنے ذمہ لے لیا اللہ نے بھی انہیں پیشوا بنا دیا “ ۔ چنانچہ فرمان ہے «وَلَقَدْ آتَیْنَا بَنِی إِسْرَائِیلَ الْکِتَابَ وَالْحُکْمَ وَالنٰبُوَّۃَ [ وَرَزَقْنَاہُمْ مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاہُمْ عَلَی الْعَالَمِینَ وَآتَیْنَاہُمْ بَیِّنَاتٍ مِنَ الْأَمْرِ ] فَمَا اخْتَلَفُوا إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَہُمُ الْعِلْمُ» ۱؎ (45-الجاثیۃ:17-16) ’ ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب حکمت اور نبوت دی اور پاکیزہ روزیاں عنایت فرمائیں اور جہاں والوں پر فضیلت دی ‘ ۔ یہاں بھی آیت کے آخر میں فرمایا کہ ’ جن عقائد واعمال میں ان کا اختلاف ہے ان کا فیصلہ قیامت کے دن خود اللہ کرے گا ‘ ۔