إِنَّمَا يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا الَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِهَا خَرُّوا سُجَّدًا وَسَبَّحُوا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ ۩
ہماری آیات پر تو وہی لوگ ایمان لاتے ہیں کہ جب انھیں ان آیات سے نصیحت کی جاتی ہے۔ تو سجدہ [١٧] میں گر پڑتے ہیں اور اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے۔
ایماندار وہی ہے جس کے اعمال تابع قرآن ہوں! ’ سچے ایمانداروں کی نشانی یہ ہے کہ وہ دل کے کانوں سے ہماری آیتوں کو سنتے ہیں اور ان پر عمل کرتے ہیں ۔ زبانی حق مانتے ہیں اور دل سے بھی برحق جانتے ہیں ۔ سجدہ کرتے ہیں اور اپنے رب کی تسبیح اور حمد بیان کرتے ہیں ۔ اور اتباع حق سے جی نہیں چراتے ۔ نہ اکڑتے ضد کرتے ہیں ۔ یہ بدعات کافروں کی ہے ‘ ۔ جیسے فرمایا آیت «اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دٰخِرِیْنَ» ۱؎ (40-غافر:60) یعنی ’ میری عبادت سے تکبر کرنے والے ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں جائیں گے ‘ ۔ ’ ان سچے ایمانداروں کی ایک یہ بھی علامت ہے کہ وہ راتوں کو نیند چھوڑ کر اپنے بستروں سے الگ ہو کر نمازیں ادا کرتے ہیں ، تہجد پڑھتے ہیں ‘ ۔ مغرب عشاء کے درمیان کی نماز بھی بعض نے مراد لی ہیں ۔ کوئی کہتا ہے مراد اس سے عشاء کی نماز کا انتظار ہے ۔ اور قول ہے کہ عشاء کی اور صبح کی نمازیں باجماعت اس سے مراد ہے ، وہ اللہ سے دعائیں کرتے ہیں اس کے عذابوں سے نجات کے لیے اور اس کی نعمتیں حاصل کرنے کے لیے ساتھ ہی صدقہ خیرات بھی کرتے رہتے ہیں ۔ اپنی حیثیت کے مطابق راہ اللہ میں دیتے رہتے ہیں ۔ وہ نیکیاں بھی کرتے ہیں جن کا تعلق انہی کی ذات سے ہے ۔ اور وہ نیکیاں بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے جن کا تعلق دوسروں سے ہے ۔ ان بہترین نیکیوں میں سب سے بڑھے ہوئے وہ ہیں جو درجات میں بھی سب سے آگے ہیں ۔ یعنی سید اولاد آدم فخر دو جہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔ جیسے کہ عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے شعروں میں ہے ؎ «وَفِینَا رَسُولُ اللہِ یَتْلُو کِتَابَہُ إِذَا انْشَقَّ مَعْرُوفٌ مِنَ الصٰبْحِ سَاطِعُ» «أَرَانَا الْہُدَی بَعْدَ الْعَمَی فَقُلُوبُنَا بِہِ مُوقِنَاتٌ أَنَّ مَا قَالَ وَاقِعُ» «یَبِیتُ یُجَافِی جَنْبَہُ عَنْ فِرَاشِہِ إِذَا اسْتَثْقَلَتْ بِالْمُشْرِکِینَ الْمَضَاجِعُ» یعنی ہم میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو صبح ہوتے ہی اللہ کی پاک کتاب کی تلاوت کرتے ہیں ، راتوں کو جبکہ مشرکین گہری نیند میں سوتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کروٹ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر سے الگ ہوتی ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { اللہ تعالیٰ دو شخصوں سے بہت ہی خوش ہوتا ہے ایک تو وہ جو رات کو میٹھی نیند سویا ہوا ہے لیکن دفعۃً اپنے رب کی نعمتیں اور اس کی سزائیں یاد کرکے اٹھ بیٹھتا ہے اپنے نرم وگرم بسترے کو چھوڑ کر میرے سامنے کھڑا ہو کر نماز شروع کر دیتا ہے ۔ دوسرا شخص وہ ہے جو ایک غزوے میں ہے کافروں سے لڑتے لڑتے مسلمانوں کا پانسہ کمزور پڑ جاتا ہے لیکن یہ شخص یہ سمجھ کر کہ بھاگنے میں اللہ کی ناراضگی ہے اور اگے بڑھنے میں رب کی رضا مندی ہے میدان کی طرف لوٹتا ہے اور کافروں سے جہاد کرتا ہے یہاں تک کہ اپنا سر اس کے نام پر قربان کر دیتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فخر سے اپنے فرشتوں کو اسے دکھاتا ہے اور اس کے سامنے اس کے عمل کی تعریف کرتا ہے } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:3536 ، قال الشیخ الألبانی:حسن) مسند احمد میں ہے { سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا صبح کے وقت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہی چل رہا تھا میں نے پوچھا اے اللہ کے نبی مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت میں پہنچا دے اور جہنم سے الگ کر دے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { تو نے سوال تو بڑے کام کا کیا ہے لیکن اللہ جس پر آسان کردے اس پر بڑا سہل ہے ۔ سن تو اللہ کی عبادت کرتا رہ اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کر نمازوں کی پابندی کر رمضان کے روزے رکھ بیت اللہ کا حج کر زکوٰۃ ادا کرتا رہ ۔ آ اب میں تجھے بھلائیوں کے دروازے بتلاؤں ۔ روزہ ڈھال ہے اور انسان کی آدھی رات کی نماز ، صدقہ گناہوں کو معاف کرا دیتا ہے } ۔ { پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت «تَـتَجَافٰی جُنُوْبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا ۡ وَّمِـمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ ۔ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِیَ لَہُم مِّن قُرَّۃِ أَعْیُنٍ جَزَاءً بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ» ۱؎ (32-السجدۃ:16-17) کی تلاوت فرمائی ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { آ اب میں تجھے اس امر کے سر اس کے ستون اور اس کی کوہان کی بلندی بتاؤں ۔ اس تمام کا سر تو اسلام ہے اور اس کا ستون نماز ہے اس کے کوہان کی بلندی اللہ کی راہ کا جہاد ہے } ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اب میں تجھے تمام کاموں کے سردار کی خبردوں ؟ } پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان پکڑ کر فرمایا : { اسے روک رکھ } ۔ میں نے کہا کیا ہم اپنی بات چیت پر بھی پکڑے جائیں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اے معاذ ! افسوس تجھے معلوم نہیں انسان کو جہنم میں اوندھے منہ ڈالنے والی چیز تو اس کے زبان کے کنارے ہیں } } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2616 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) یہی حدیث کئی سندوں سے مروی ہے ایک میں یہ بھی ہے کہ { اس آیت «تَـتَجَافٰی جُنُوْبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ» إلخ ۱؎ (32-السجدۃ:16-17) کو پڑھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اس سے مراد بندے کا رات کی نماز پڑھنا ہے } } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:28240:ضعیف و منقطع) اور روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان مروی ہے کہ { انسان کا آدھی رات کو قیام کرنا پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اسی آیت کو تلاوت کرنا مروی ہے } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:27237:ضعیف و منقطع) ایک حدیث میں ہے کہ { قیامت کے دن جبکہ اول و آخر سب لوگ میدان محشر میں جمع ہوں گے تو ایک منادی فرشتہ آواز بلند کرے گا جسے تمام مخلوق سنے گی ۔ وہ کہے گا کہ آج سب کو معلوم ہو جائے گا کہ سب سے زیادہ ذی عزت اللہ کے نزدیک کون ہے ؟ پھر لوٹ کر آواز لگائے گا کہ تہجد گزار لوگ اٹھ کھڑے ہوں اور اس آیت کی تلاوت فرمائے گا تو یہ لوگ اٹھ کھڑے ہونگے اور گنتی میں بہت کم ہوں گے } ۔ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ” جب یہ آیت اتری تو ہم لوگ مجلس میں بیٹھے تھے ۔ اور بعض صحابہ رضی اللہ عنہم مغرب کے بعد سے لے کر عشاء تک نماز میں مشغول رہتے تھے پس یہ آیت نازل ہوئی “ ۔ ۱؎ (مسند بزار:2250:ضعیف) اس حدیث کی یہی ایک سند ہے ۔ پھر فرماتا ہے “ ان کے لیے جنت میں کیا کیا نعمتیں اور لذتیں پوشیدہ پوشیدہ بنا کر رکھی ہیں ، اسی کا کسی کو علم نہیں چونکہ یہ لوگ بھی پوشیدہ طور پر عبادت کرتے تھے اسی طرح ہم نے بھی پوشیدہ طور پر ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کی ٹھنڈک اور ان کے دل کا سکھ تیار کر رکھا ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی دل میں اس کا خیال آیا ‘ ۔ بخاری کی حدیث قدسی میں ہے { میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ رحمتیں اور نعمتیں مہیا کر رکھی ہیں جو نہ کسی آنکھ کے دیکھنے میں آئیں نہ کسی کان کے سننے میں نہ کسی کے دل کے سوچنے میں آئے ہوں } ۔ اس حدیث کو بیان فرما کر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی حدیث نے کہا قرآن کی اس آیت کو پڑھ لو «فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَہُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ جَزَاءً بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ» ۱؎ (32-السجدۃ:17) ، اس روایت میں «قُرَّۃِ» کے بجائے «قُرَّاتِ» پڑھنا بھی مروی ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4779) اور روایت میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ { جنت کی نعمتیں جسے ملیں وہ کبھی بھی واپس نہیں ہونگی ۔ ان کے کپڑے پرانے نہ ہوں گے ان کی جوانی ڈھلے گی نہیں ان کے لیے جنت میں وہ ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا نہ کسی انسان کے دل پر ان کا وہم و گمان آیا } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:3836) ایک حدیث میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کا وصف بیان کرتے ہوئے آخر میں یہی فرمایا اور پھر یہ آیت «تَـتَجَافٰی جُنُوْبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا ۡ وَّمِـمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ ۔ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِیَ لَہُم مِّن قُرَّۃِ أَعْیُنٍ جَزَاءً بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ» ۱؎ (32-السجدۃ:16-17) تک تلاوت فرمائی } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2825) حدیث قدسی میں ہے { میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے ایسی نعمتیں تیار کی ہیں جو نہ آنکھوں نے دیکھی ہیں نہ کانوں نے سنی ہیں بلکہ اندازہ میں بھی نہیں آسکتیں } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:28256:صحیح بالشواہد) صحیح مسلم شریف میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ { موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ رب العالمین عزوجل سے عرض کیا کہ ” اے باری تعالیٰ ادنٰی جنتی کا درجہ کیا ہے ؟ جواب ملا کہ ’ ادنٰی جنتی وہ شخص ہے جو کل جنتیوں کے جنت میں چلے جانے کے بعد آئے گا اس سے کہا جائے گا جنت میں داخل ہو جاؤ ‘ وہ کہے گا یا اللہ کہاں جاؤں ہر ایک نے اپنی جگہ پر قبضہ کرلیا ہے اور اپنی چیزیں سنھبال لی ہیں ۔ اس سے کہا جائے گا کہ ’ کیا تو اس پر خوش ہے ؟ کہ تیرے لیے اتنا ہو جتنا دنیا کے کسی بہت بڑے بادشاہ کے پاس تھا ؟ ‘ وہ کہے گا پروردگار میں اس پر بہت خوش ہوں ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’ تیرے لیے اتنا ہی اور اتنا ہی اور اتنا ہی اور پانچ گناہ ‘ ۔ یہ کہے گا بس بس اے رب میں راضی ہو گیا ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’ یہ سب ہم نے تجھے دیا اور اس کا دس گنا اور بھی دیا اور بھی جس چیز کو تیرا دل چاہے اور جس چیز سے تیری آنکھیں ٹھنڈی رہیں ‘ ۔ یہ کہے گا میرے پروردگار میری تو باچھیں کھل گئیں جی خوش ہو گیا ۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا پھر اللہ تعالیٰ اعلیٰ درجہ کے جنتی کی کیا کیفیت ہے ؟ فرمایا ’ یہ وہ لوگ ہیں جن کی خاطر و مدارت کی کرامت میں نے اپنے ہاتھ سے لکھی اور اس پر اپنی مہر لگا دی ہے پھر نہ تو وہ کسی کے دیکھنے میں آئی نہ کسی کے سننے میں نہ کسی کے خیال میں ‘ ۔ اس کا مصداق اللہ کی کتاب کی آیت «فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَہُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ جَزَاءً بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ» ۱؎ (32-السجدۃ:17) ، ہے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:189) حضرت عباس بن عبدالواحد رحمہ اللہ فرماتے ہیں مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ ایک جنتی اپنی حور کے ساتھ محبت پیار میں ستر سال تک مشغول رہے گا کسی دوسری چیز کی طرف اس کا التفات ہی نہیں ہو گا ۔ پھر جو دوسری طرف التفات ہوگا تو دیکھے گا کہ پہلی سے بہت زیادہ خوبصورت اور نوارنی شکل کی ایک اور حور ہے ۔ وہ اسے اپنی طرف متوجہ دیکھ کر خوش ہو کر کہے گی کہ اب میری مراد بھی پوری ہوگی یہ کہے گا تو کون ہے ؟ وہ کہے گی میں اللہ کی مزید نعمتوں میں سے ہوں ۔ اب یہ سراپا اس کی طرف متوجہ ہو جائے گا پھر ستر سال کے بعد دوسری طرف دیکھے گا کہ اس سے بھی اچھی ایک اور حور ہے وہ کہے گی اب وقت آ گیا کہ آپ میں میرا حصہ بھی ہو یہ پوچھے گا تم کون ہو ؟ وہ جواب دے گی میں ان میں سے ہوں جن کی نسبت جناب باری تعالیٰ نے فرمایا ہے ’ کوئی نہیں جانتا کہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھوں کی کیا کیا ٹھنڈک چھپا رکھی ہے ‘ ۔ سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ” فرشتے جنتیوں کے پاس دنیا کے اندازے سے ہر دن میں تین تین بار جنت عدن کے اللہ کے تحفے لے کر جائیں گے جو ان کی جنت میں نہیں اسی کا بیان اس آیت میں ہے ۔ وہ فرشتے ان سے کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ تم سے خوش ہے “ ۔ ابوالیمان فزاری یا کسی اور سے مروی ہے کہ جنت کے سو درجے ہیں پہلا درجہ چاندی کا ہے اس کی زمین بھی چاندی کی ہے اس کے محلات بھی چاندی کے اس کی مٹی مشک کی ہے ، تیسری موتی کی ، زمین بھی موتی کی گھر بھی موتی کے برتن بھی موتی کے اور مٹی مشک کی ، اور باقی ستانوے تو وہ ہیں جو نہ کسی آنکھ نے دیکھیں نہ کسی کان نے سنیں نہ کسی انسان کے دل میں گزریں ، پھر اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ ابن جریر میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روح الامین علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ انسان کی نیکیاں بدیاں لائی جائی گی ۔ بعض بعض سے کم کی جائیں گی پھر اگر ایک نیکی بھی باقی بچ گئی تو اللہ تعالیٰ اسے بڑھا دے گا اور جنت میں کشادگی عطا فرمائے گا ۔ راوی نے یزداد سے پوچھا کہ نیکیاں کہاں چلی گئیں ؟ تو انہوں نے اس آیت کی تلاوت کی «اُولٰیِٕکَ الَّذِیْنَ نَتَقَبَّلُ عَنْہُمْ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَنَتَجَاوَزُ عَنْ سَـیِّاٰتِہِمْ فِیْٓ اَصْحٰبِ الْجَــنَّۃِ وَعْدَ الصِّدْقِ الَّذِیْ کَانُوْا یُوْعَدُوْنَ» ۱؎ (46-الأحقاف:16) ، یعنی ’ یہ وہ لوگ ہیں جن کے اچھے اعمال ہم نے قبول فرمالئے اور ان کی برائیوں سے ہم نے در گزر فرما لیا ‘ ۔ { راوی نے کہا پھر اس آیت کے کیا معنی ہیں؟ «فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَہُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ جَزَاءً بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ» (32-السجدۃ:17)، فرمایا { بندہ جب کوئی نیکی لوگوں سے چھپا کر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی قیامت کے دن اس کے آرام کی خبریں جو اس کے لیے پوشیدہ رکھ چھوڑی تھیں عطا فرمائے گا } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:28255:ضعیف)