وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ ۖ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ
اور (یاد کرو) جب لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کر رہا تھا کہ : ’’پیارے بیٹے! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک [١٥] نہ بنانا، کیونکہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔‘‘
لقمان کی اپنے بیٹے کو نصیحت و وصیت حضرت لقمان نے جو اپنے صاحبزادے کو نصیحت و وصیت کی تھی اس کا بیان ہو رہا ہے ۔ یہ لقمان بن عنقاء بن سدون تھے ان کے بیٹے کا نام سہیلی کے بیان کی رو سے ثاران ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا ذکر اچھائی سے کیا اور فرمایا ہے کہ ’ انکو حکمت عنایت فرمائی گئی تھی ‘ ۔ انہوں نے جو بہترین وعظ اپنے لڑکے کو سنایا تھا اور انہیں مفید ضروری اور عمدہ نصیحتیں کی تھیں ان کا ذکر ہو رہا ہے ۔ ظاہر ہے کہ اولاد سے پیاری چیز انسان کی اور کوئی نہیں ہوتی اور انسان اپنی بہترین اور انمول چیز اپنی اولاد کو دینا چاہتا ہے ۔ تو سب سے پہلے یہ نصیحت کی کہ ” صرف اللہ کی عبادت کرنا اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا ۔ یاد رکھو اس سے بڑی بے حیائی اور زیادہ برا کام کوئی نہیں “ ۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری میں مروی ہے کہ { جب آیت «ااَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْٓا اِیْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ اُولٰیِٕکَ لَہُمُ الْاَمْنُ وَہُمْ مٰہْتَدُوْنَ» ۱؎ (6-الأنعام:82) اتری تو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بڑی مشکل آپڑی اور انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا ہم میں سے وہ کون ہے جس نے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو ؟ اور آیت میں ہے کہ ’ ایمان کو جنہوں نے ظلم سے نہیں ملایا وہی با امن اور راہ راست والے ہیں ‘ ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ { ظلم سے مراد عام گناہ نہیں بلکہ ظلم سے مراد وہ ظلم ہے جو لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ بیٹے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا بڑا بھاری ظلم ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4629) اس پہلی وصیت کے بعد لقمان دوسری وصیت کرتے ہیں اور وہ بھی درجے اور تاکید کے لحاظ سے واقعی ایسی ہی ہے کہ اس پہلی وصیت سے ملائی جائے ، یعنی ” ماں باپ کے ساتھ سلوک واحسان کرنا “ ۔ جیسے فرمان جناب باری ہے آیت «وَقَضٰی رَبٰکَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا» ۱؎ (17-الإسراء:23) ، یعنی ’ تیرا رب یہ فیصلہ فرما چکا ہے کہ اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک و احسان کرتے رہو ‘ ۔ عموماً قرآن کریم میں ان دونوں چیزوں کا بیان ایک ساتھ ہے ۔ یہاں بھی اسی طرح ہے «وَھْنٌ» کے معنی مشقت تکلیف ضعف وغیرہ کے ہیں ۔ ایک تکلیف تو حمل کی ہوتی ہے جسے ماں برداشت کرتی ہے ۔ حالت حمل کے دکھ درد کی حالت سب کو معلوم ہے پھر دو سال تک اسے دودھ پلاتی رہتی ہے اور اس کی پرورش میں لگی رہتی ہے ۔ چنانچہ اور آیت میں ہے «وَالْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَھُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یٰتِمَّ الرَّضَاعَۃَ» ۱؎ (2-البقرۃ:233) الخ ، یعنی ’ جو لوگ اپنی اولاد کو پورا پورا دودھ پلانا چاہے ان کے لیے آخری انتہائی سبب یہ ہے کہ دو سال کامل تک ان بچوں کو ان کی مائیں اپنا دودھ پلاتی رہیں ‘ ۔ چونکہ ایک اور آیت میں فرمایا گیا ہے «وَحَمْلُہٗ وَفِصٰلُہٗ ثَلٰثُوْنَ شَہْرًا» ۱؎ (46-الأحقاف:15) یعنی ’ مدت حمل اور دودھ چھٹائی کل تیس ماہ ہے ‘ ۔ اس لیے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور دوسرے بڑے اماموں نے استدلال کیا ہے کہ ” حمل کی کم سے کم مدت چھ مہینے ہے “ ۔ ماں کی اس تکلیف کو اولاد کے سامنے اس لیے ظاہر کیا جاتا ہے کہ اولاد اپنی ماں کی ان مہربانیوں کو یاد کر کے شکر گزاری ، اطاعت اور احسان کرے ۔ جیسے اور آیت میں فرمان عالیشان ہے آیت «وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا» ۱؎ (17-الإسراء:24) ’ ہم سے دعا کرو اور کہو کہ میرے سچے پروردگار میرے ماں باپ پر اس طرح رحم و کرم فرما جس طرح میرے بچپن میں وہ مجھ پر رحم کیا کرتے تھے ‘ ۔ یہاں فرمایا ’ تاکہ تو میرا اور اپنے ماں باپ کا احسان مند ہو ۔ سن لے آخر لوٹنا تو میری طرف ہے اگر میری اس بات کو مان لیا تو پھر بہترین جزا دونگا ‘ ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ { جب سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر بنا کر بھیجا آپ رضی اللہ عنہ نے وہاں پہنچ کر سب سے پہلے کھڑے ہو کر خطبہ پڑھا جس میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا ” میں تمہاری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھیجا ہوا آیا ہوں ۔ یہ پیغام لے کر تم اللہ ہی کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو میری باتیں مانتے رہو میں تمہاری خیر خواہی میں کوئی کوتاہی نہ کرونگا ۔ سب کو لوٹ کر اللہ کی طرف جانا ہے ۔ پھر یا تو جنت مکان بنے گی یا جہنم ٹھکانا ہو گا ۔ پھر وہاں سے نہ اخراج ہو گا نہ موت آئے گی “ } ۔ ۱؎ (مستدرک حاکم:83/1) پھر فرماتا ہے کہ ’ اگر تمہارے ماں باپ تمہیں اسلام کے سوا اور دین قبول کرنے کو کہیں ، گو وہ تمام تر طاقت خرچ کر ڈالیں خبردار! تم ان کی مان کر میرے ساتھ ہرگز شریک نہ کرنا ۔ لیکن اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ تم ان کے ساتھ سلوک و احسان کرنا چھوڑ دو نہیں دنیوی حقوق جو تمہارے ذمہ ان کے ہیں ادا کرتے رہو ۔ ایسی باتیں ان کی نہ مانو بلکہ ان کی تابعداری کرو جو میری طرف رجوع ہو چکے ہیں ۔ سن لو! تم سب لوٹ کر ایک دن میرے سامنے آنے والے ہو اس دن میں تمہیں تمہارے تمام تر اعمال کی خبر دونگا ‘ ۔ طبرانی کی کتاب العشرہ میں ہے سیدنا سعد بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت ” میرے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ میں اپنی ماں کی بہت خدمت کیا کرتا تھا اور ان کا پورا اطاعت گزار تھا ۔ جب مجھے اللہ نے اسلام کی طرف ہدایت کی تو میری والدہ مجھ پر بہت بگڑیں اور کہنے لگی بچے یہ نیا دین تو کہاں سے نکال لایا ۔ سنو! میں تمہیں حکم دیتی ہوں کہ اس دین سے دستبردار ہو جاؤ ورنہ میں نہ کھاؤنگی نہ پیوگی اور یونہی بھوکی مرجاؤں گی ۔ میں نے اسلام کو چھوڑا نہیں اور میری ماں نے کھانا پینا ترک کر دیا اور ہر طرف سے مجھ پر آوازہ کشی ہونے لگی کہ یہ اپنی ماں کا قاتل ہے ۔ میں بہت ہی دل میں تنگ ہوا اپنی والدہ کی خدمت میں باربار عرض کیا خوشامدیں کیں سمجھایا کہ اللہ کے لیے اپنی ضد سے باز آ جاؤ ۔ یہ تو ناممکن ہے کہ میں اس سچے دین کو چھوڑ دوں ۔ اسی ضد میں میری والدہ پر تین دن کا فاقہ گزر گیا اور اس کی حالت بہت ہی خراب ہو گئی تو میں اس کے پاس گیا اور میں نے کہا میری اچھی اماں جان سنو! تم مجھے میری جان سے زیادہ عزیز ہو لیکن میرے دین سے زیادہ عزیز نہیں ۔ واللہ! ایک نہیں تمہاری ایک سوجانیں بھی ہوں اور اسی بھوک پیاس میں ایک ایک کر کے سب نکل جائیں تو بھی میں اخری لمحہ تک اپنے سچے دین اسلام کو نہ چھوڑونگا ۔ اب میری ماں مایوس ہوگئیں اور کھانا پینا شرع کر دیا “ ۔