وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا ۖ وَإِن جَاهَدَاكَ لِتُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۚ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
اور ہم نے انسان کو تاکیدی حکم دیا کہ وہ اپنے والدین [١٠] سے نیک سلوک کرے اور اگر وہ اس بات پر زور دیں کہ تو کسی کو میرا شریک ٹھہرائے جس کا تجھے علم نہیں [١١] تو ان کا کہنا نہ مان [١٢]۔ میری طرف ہی تمہیں لوٹ کر آنا ہے تو میں تمہیں بتادوں [١٣] گا کہ جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔
انسان کا وجود پہلے اپنی توحید پر مضبوطی کے ساتھ کاربند رہنے کا حکم فرما کر اب ماں باپ کے سلوک واحسان کا حکم دیتا ہے ۔ کیونکہ انہی سے انسان کا وجود ہوتا ہے ۔ باپ خرچ کرتا ہے اور پرورش کرتا ہے ماں محبت رکھتی ہے اور پالتی ہے ۔ دوسری آیت میں فرمان ہے «وَقَضَیٰ رَبٰکَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِندَکَ الْکِبَرَ أَحَدُہُمَا أَوْ کِلَاہُمَا فَلَا تَقُل لَّہُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْہَرْہُمَا وَقُل لَّہُمَا قَوْلًا کَرِیمًا * وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذٰلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَانِی صَغِیرًا» ۱؎ (17-الإسراء:23-24) یعنی ’ اللہ تعالیٰ فیصلہ فرما چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو ، اور ماں باپ کی پوری اطاعت کرو ۔ ان دونوں یا ان میں سے ایک کا بڑھاپے کا زمانہ آ جائے تو انہیں اف بھی نہ کہنا ، ڈانٹ ڈپٹ تو کہاں کی ؟ بلکہ ان کے ساتھ ادب سے کلام کرنا اور رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھکے رہنا اور اللہ سے ان کے لیے دعا کرنا کہا اے اللہ ان پر ایسا رحم کر جیسے یہ بچپن میں مجھ پر کیا کرتے تھے ۔ ‘ لیکن ہاں یہ خیال رہے کہ اگر یہ شرک کی طرف بلائیں تو ان کا کہا نہ ماننا ۔ سمجھ لو کہ تمہیں ایک دن میرے سامنے کھڑے ہونا ہے ۔ اس وقت میں اپنی پرستش کا اور میرے فرمان کے تحت ماں باپ کی اطاعت کرنے کا بدلہ دونگا ۔ اور نیک لوگوں کے ساتھ حشر کرونگا ۔ اگر تم نے اپنے ماں باپ کی وہ باتیں نہیں مانیں جو میرے احکام کے خلاف نہیں تو وہ خواہ کیسے ہی ہوں میں ان سے تمہیں الگ کر لوں گا ۔ کیونکہ قیامت کے دن انسان اس کے ساتھ ہو گا جسے وہ دنیا میں چاہتا تھا ۔ اس لیے اس کے بعد ہی فرمایا کہ ایمان والوں اور نیک عمل والوں کو میں اپنے صالح بندوں میں ملا دوں گا ۔ { سیدنا سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میرے بارے میں چار آیتیں اتریں جن میں سے ایک آیت یہ بھی ہے ۔ یہ اس لیے اتری کہ میری ماں نے مجھ سے کہا کہ اے سعد ! کیا اللہ کا حکم میرے ساتھ نیکی کرنے کا نہیں ؟ اگر تو نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے انکار نہ کیا تو واللہ میں کھانا پینا چھوڑ دونگی چنانچہ اس نے یہی کیا یہاں تک کہ لوگ زبردستی اس کا منہ کھول کر غذا حلق میں پہنچا دیتے تھے پس یہ آیت اتری ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:1743-44) [ ترمذی وغیرہ ]