وَإِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفَاكِ عَلَىٰ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ
اور ( وہ وقت بھی یاد کرو) جب فرشتوں نے مریم سے کہا : ’’اے مریم! اللہ نے تجھے برگزیدہ کیا اور پاکیزگی عطاکی اور تجھے پورے جہان کی عورتوں پر (ترجیح دے کر) منتخب کرلیا ہے
تین افضل ترین عورتیں یہاں بیان ہو رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے مریم علیہما السلام کو فرشتوں نے خبر پہنچائی کہ اللہ نے انہیں ان کی کثرت عبادت ، ان کی دنیا کی بے رغبتی، ان کی شرافت اور شیطانی وسواس سے دوری کی وجہ سے اپنے قرب خاص عنایت فرما دیا ہے ، اور تمام جہان کی عورتوں پر انہیں خاص فضیلت دے رکھی ہے ، صحیح مسلم شریف وغیرہ میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنتی عورتیں اونٹ پر سوار ہونے والیاں ہیں ان میں سے بہتر عورتیں قریش کی ہیں جو اپنے چھوٹے بچوں پر بہت ہی شفقت اور پیار کرنے والی اور اپنے خاوند کی چیزوں کی پوری حفاظت کرنے والی ہیں ، سیدہ مریم بنت عمران اونٹ پر کبھی سوار نہیں ہوئیں (صحیح مسلم:2527) ۱؎ ، بخاری و مسلم کی ایک حدیث میں ہے عورتوں میں سے بہتر عورت سیدہ مریم بنت عمران ہیں اور عورتوں میں سے بہتر عورت خدیجہ بنت خویلد ہیں رضی اللہ عنہا (صحیح بخاری:3432) ۱؎ ترمذی کی صحیح حدیث میں ہے ساری دنیا کی عورتوں میں سے بہتر مریم بنت عمران ، خدیجہ بنت خویلد ، فاطمہ بنت محمد ، آسیہ فرعون کی بیوی ہیں رضی اللہ عنھن (سنن ترمذی:3878،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ اور حدیث میں ہے یہ چاروں عورتیں تمام عالم کی عورتوں سے افضل اور بہتر ہیں (تفسیر ابن جریر الطبری:7025:صحیح بالشواھد) ۱؎ اور حدیث میں ہے مردوں میں سے کامل مرد بہت سے ہیں لیکن عورتوں میں کمال والی عورتیں صرف تین ہیں ، مریم بنت عمران ، آسیہ فرعون کی بیوی اور خدیجہ بنت خویلدرضی اللہ عنھمن اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت عورتوں پر ایسی ہے جیسے ثرید یعنی گوشت کے شوربے میں بھگوئی ہوئی روٹی کی تمام کھانوں پر (صحیح بخاری:3411) ۱؎ یہ حدیث ابوداؤد کے علاوہ اور سب کتابوں میں ہے ، صحیح بخاری شریف کی اس حدیث میں سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کا ذکر نہیں ، میں نے اس حدیث کی تمام سندیں اور ہر سند کے الفاظ اپنی کتاب البدایہ والنہایہ میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے ذکر میں جمع کر دئیے ہیں «وللہ الحمد والمنۃ» پھر فرشتے فرماتے ہیں کہ اے مریم رضی اللہ عنہا تو خشوع و خضوع رکوع و سجود میں رہا کر اللہ تبارک وتعالیٰ تجھے اپنی قدرت کا ایک عظیم الشان نشان بنانے والا ہے اس لیے تجھے رب کی طرف پوری رغبت رکھنی چاہیئے ، قنوت کے معنی اطاعت کے ہیں جو عاجزی اور دل کی حاضری کے ساتھ ہو ، جیسے ارشاد«وَلَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ کُلٌّ لَّہٗ قٰنِتُوْنَ» (30-الروم:26) یعنی اس کی ماتحتی اور ملکیت میں زمین و آسمان کی ہرچیز ہے سب کے سب اس کے محکوم اور تابع فرمان ہیں ، ابن ابی حاتم کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ قرآن میں جہاں کہیں قنوت کا لفظ ہے اس سے مراد اطاعت گذاری ہے ، (تفسیر ابن ابی حاتم:261/2:ضعیف) ۱؎ یہی حدیث ابن جریر میں بھی ہے لیکن سند میں نکارت ہے ، سیدنا مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدہ مریم علیہما السلام نماز میں اتنا لمبا قیام کرتی تھیں کہ دونوں ٹخنوں پر ورم آ جاتا تھا ، قنوت سے مراد نماز میں لمبے لمبے رکوع کرنا ہے ، حسن بصری رحمہ اللہ کا قول ہے کہ اس سے یہ مراد ہے کہ اپنے رب کی عبادت میں مشغول رہ اور رکوع سجدہ کرنے والوں میں سے ہو جا ، سیدنا اوزاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مریم صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنے عبادت خانے میں اس قدر بکثرت باخشوع اور لمبی نمازیں پڑھا کرتی تھیں کہ دونوں پیروں میں زرد پانی اتر آیا ، (ضعیف) ۱؎ « رضی اللہ عنھا و ارضاھا » ۔ یہ اہم خبریں بیان کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان باتوں کا علم تمہیں صرف میری وحی سے ہوا ورنہ تمہیں کیا خبر ؟ تم کچھ اس وقت ان کے پاس تھوڑے ہی موجود تھے جو ان واقعات کی خبر لوگوں کو پہنچاتے ؟ لیکن اپنی وحی سے ہم نے ان واقعات کو اس طرح آپ پر کھول دیا گویا آپ اس وقت خود موجود تھے جبکہ سیدہ مریمرضی اللہ عنہا کی پرورش کے بارے میں ہر ایک دوسرے پر سبقت کرتا تھا سب کی چاہت تھی کہ اس دولت سے مالا مال ہو جاؤں اور یہ اجر مجھے مل جائے ، جب آپ کی والدہ صاحبہ آپ کو لے کر بیت المقدس کی مسجد سلیمانی میں تشریف لائیں اور وہاں کے خادموں سے جو سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے بھائی اور سیدنا ہارون علیہ السلام کی نسل میں سے تھے کہا کہ میں انہیں اپنی نذر کے مطابق نام اللہ پر آزاد کر چکی ہوں تم اسے سنبھالو ، یہ ظاہر ہے کہ لڑکی ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ حیض کی حالت میں عورتیں مسجد میں نہیں آسکتیں اب تم جانو تمہارا کام ، میں تو اسے گھر واپس نہیں لے جا سکتی کیونکہ نام اللہ اسے نذر کر چکی ہوں ، سیدنا عمران علیہ السلام یہاں کے امام نماز تھے اور قربانیوں کے مہتمم تھے اور یہ ان کی صاحبزادی تھیں تو ہر ایک نے بڑی چاہت سے ان کے لیے ہاتھ پھیلا دئیے ادھر سے سیدنا زکریاعلیہ السلام نے اپنا ایک حق اور جتایا کہ میں رشتہ میں بھی ان کا خالو ہوتا ہوں تو یہ لڑکی مجھ ہی کو ملنی چاہیئے اور لوگ راضی نہ ہوئے آخر قرعہ ڈالا گیا اور قرعہ میں ان سب نے اپنی وہ قلمیں ڈالیں جن سے توراۃ لکھتے تھے ، تو قرعہ سیدنا زکریا علیہ السلام کے نام نکلا (تفسیر ابن جریر الطبری:351/6) ۱؎ اور یہی اس سعادت سے مشرف ہوئے دوسری مفصل روایتوں میں یہ بھی ہے کہ نہر اردن پر جا کر یہ قلمیں ڈالی گئیں کہ پانی کے بہاؤ کے ساتھ جو قلم نکل جائے وہ نہیں اور جس کا قلم ٹھہر جائے وہ سیدہ مریم علیھا السلام کا کفیل بنے ، چنانچہ سب کی قلمیں تو پانی بہا کر لے گیا صرف سیدنا زکریا علیہ السلام کا قلم ٹھہر گیا بلکہ الٹا اوپر کو چڑھنے لگا تو ایک تو قرعے میں ان کا نام نکلا دوسرے قریب کے رشتہ داری تھے پھر یہ خود ان تمام کے سردار امام بلکہ نبی تھے صلوات اللہ وسلامہ علیہ پس انہی کو سیدہ مریم علیھا السلام سونپ دی گئیں ۔