وَلَا يَصُدُّنَّكَ عَنْ آيَاتِ اللَّهِ بَعْدَ إِذْ أُنزِلَتْ إِلَيْكَ ۖ وَادْعُ إِلَىٰ رَبِّكَ ۖ وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
اور ایسا نہ ہونا چاہئے کہ آپ کی طرف سے اللہ تعالیٰ کی آیات نازل ہونے کے بعد کافر آپ کو ان پر عمل پیرا ہونے سے روک دیں۔ آپ انھیں اپنے پروردگار کی طرف دعوت دیجئے اور شرک کرنے والوں میں شامل نہ ہوں [١٢٠]
1 پھر فرمایا کہ ’ اللہ کی اتری ہوئی آیتوں سے یہ لوگ کہیں تجھے روک نہ دیں یعنی جو تیرے دین کی مخالفت کرتے ہیں اور لوگوں کو تیری تابعداری سے روکتے ہیں ۔ تو اس سے اثر پذیر نہ ہونا اپنے کام پر لگے رہنا اللہ تیرے کلمے کو بلند کرنے والا ہے تیرے دین کی تائید کرنے والا ہے تیری رسالت کو غالب کرنے والا ہے ۔ تمام دینوں پر تیرے دین کو اونچا کرنے والا ہے ۔ تو اپنے رب کی عبادت کی طرف لوگوں کو بلاتا رہ جو اکیلا اور لاشریک ہے تجھے نہیں چاہیئے کہ مشرکوں کا ساتھ دے ۔ اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکار ۔ عبادت کے لائق وہی ہے الوہیت کے قابل اسی کی عظیم الشان ذات ہے وہی دائم اور باقی ہے حی وقیوم ہے تمام مخلوق مر جائے گی اور وہ موت سے دور ہے ‘ ۔ جیسے فرمایا آیت «کُلٰ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ وَّیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذو الْجَلٰلِ وَالْاِکْرَامِ» ۱؎ (55-الرحمن:27-26) ’ جو بھی یہاں پر ہے فانی ہے ۔ تیرے رب کا چہرہ ہی باقی رہ جائے گا جو جلالت وکرامت والا ہے ‘ ۔ «وَجْہُ» سے مراد ذات ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { سب سے زیادہ سچا کلمہ لبید شاعر کا ہے جو اس نے کہا ہے شعر «أَلَا کُلّ شَیْء مَا خَلَا اللَّہ بَاطِل» یاد رکھو کہ اللہ کے سوا سب کچھ باطل ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6147) مجاہد وثور رحمہ اللہ علیہم سے مروی ہے کہ ہرچیز باطل ہے مگر وہ کام جو اللہ کی رضا جوئی کے لیے کئے جائیں ان کا ثواب رہ جاتا ہے ۔ شاعروں کے شعروں میں بھی وجہ کا لفظ اس مطلب کے لیے استعمال کیا گیا ہے ملاحظہ ہو شعر «أَسْتَغْفِر اللَّہ ذَنْبًا لَسْت مُحْصِیہ» «رَبّ الْعِبَاد إِلَیْہِ الْوَجْہ وَالْعَمَل» ” میں اللہ سے جو تمام بندوں کا رب ہے جس کی طرف توجہ اور قصد ہے اور جس کے لیے عمل ہیں اپنے ان تمام گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں جنہیں میں شمار بھی نہیں کر سکتا “ ۔ یہ قول پہلے قول کے خلاف نہیں ۔ یہ بھی اپنی جگہ صحیح ہے کہ انسان کے تمام اعمال اکارت ہیں صرف ان ہی نیکیوں کے بدلے کا مستحق ہے جو محض اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے کی ہوں ۔ اور پہلے قول کا مطلب بھی بالکل صحیح ہے کہ سب جاندار فانی اور زائل ہیں صرف اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پاک ہے جو فنا اور زوال سے بالاتر ہے ۔ وہی اول وآخر ہے ہر چیز سے پہلے تھا اور ہر چیز کے بعد رہے گا ۔ مروی ہے کہ جب سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اپنے دل کو مضبوط کرنا چاہتے تھے تو جنگل میں کسی کھنڈر کے دروازے پر کھڑے ہو جاتے اور درد ناک آواز سے کہتے کہ ” اس کے بانی کہاں ہے ؟ پھر خود جواب میں یہی پڑھتے ۔ حکم و ملک اور ملکیت صرف اسی کی ہے مالک ومتصرف وہی ہے ۔ اس کے حکم احکام کو کوئی رد نہیں کر سکتا ۔ روز جزا سب اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے ۔ وہ سب کو ان نیکیوں اور بدیوں کا بدلہ دے گا ۔ نیک کو نیک بدلہ اور برے کو بری سزا “ ۔ «الْحَمْدُ لِلّٰہ» سورۃ قصص کی تفسیر ختم ہوئی ۔