فَخَرَجَ عَلَىٰ قَوْمِهِ فِي زِينَتِهِ ۖ قَالَ الَّذِينَ يُرِيدُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا يَا لَيْتَ لَنَا مِثْلَ مَا أُوتِيَ قَارُونُ إِنَّهُ لَذُو حَظٍّ عَظِيمٍ
پر (ایک دن) وہ اپنی قوم کے لوگوں کے سامنے [١٠٧] بڑے ٹھاٹھ باٹھ سے نکلا۔ جو لوگ حیات دنیا کے طالب گار تھے وہ کہنے لگے : کاش ہمیں بھی وہی کچھ میسر ہوتا جو قارون کو دیا گیا ہے، وہ تو بڑا ہی بختوں والا ہے۔
سامان تعیش کی فروانی قارون ایک دن نہایت قیمتی پوشاک پہن کر زرق برق عمدہ سواری پرسوار ہو کر اپنے غلاموں کو آگے پیچھے بیش بہا پوشاکیں پہنائے ہوئے لے کر بڑے ٹھاٹھ سے اتراتا ہوا اکڑتا ہوا نکلا اس کا یہ ٹھاٹھ اور یہ زینت وتجمل دیکھ کر دنیا داروں کے منہ میں پانی بھر آیا اور کہنے لگے کاش کہ ہمارے پاس بھی اس جتنا مال ہوتا ۔ یہ تو بڑا خوش نصیب ہے اور بڑی قسمت والا ہے ۔ علماء کرام نے ان کی یہ بات سن کر انہیں اس خیال سے روکنا چاہا اور انہیں سمجھانے لگے کہ دیکھو اللہ نے جو کچھ اپنے مومن اور نیک بندوں کے لیے اپنے ہاں تیار کر رکھا ہے وہ اس سے کروڑہا درجہ بارونق دیرپا اور عمدہ ہے ۔ تمہیں ان درجات کو حاصل کرنے کے لیے اس دو روزہ زندگی کو صبر وبرداشت سے گزارنا چاہیئے جنت صابروں کا حصہ ہے یہ مطلب بھی ہے کہ ایسے پاک کلمے صبر کرنے والوں کی زبان ہی سے نکلتے ہیں جو دنیا کی محبت سے دور اور دار آخرت کی محبت میں چور ہوتے ہیں اس صورت میں ممکن ہے کہ یہ کلام ان واعظوں کا نہ ہو بلکہ ان کے کام کی اور ان کی تعریف میں یہ جملہ اللہ کی طرف سے خبر ہو ۔