سورة الفرقان - آیت 20

وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا إِنَّهُمْ لَيَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَيَمْشُونَ فِي الْأَسْوَاقِ ۗ وَجَعَلْنَا بَعْضَكُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةً أَتَصْبِرُونَ ۗ وَكَانَ رَبُّكَ بَصِيرًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور (اے نبی)! ہم نے آپ سے پہلے جتنے بھی رسول بھیجے وہ سب [٢٥] کھانا کھاتے اور بازروں میں چلتے پھرتے تھے۔ اور ہم نے تم لوگوں کو ایک دوسرے کے لئے آزمائش [٢٦] کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ تو کیا (اے مسلمانو)! تم کفار کے [٢٧] (طعن و تشنیع پر) صبر کرو گے؟ اور آپ کا پروردگار سب کچھ دیکھ رہا ہے [٢٨]۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

1 کافر اس بات پر اعتراض کرتے تھے کہ نبی کو کھانے پینے اور تجارت بیوپار سے کیا مطلب ؟ اس کا جواب ہو رہا ہے کہ اگلے سب پیغمبر بھی انسانی ضرورتیں بھی رکھتے تھے ، کھانا پینا ان کے ساتھ بھی لگا ہوا تھا ۔ بیوپار ، تجارت اور کسب معاش وہ بھی کیا کرتے تھے ۔ یہ چیزیں نبوت کے خلاف نہیں ۔ ہاں اللہ تعالیٰ عزوجل اپنی عنایت خاص سے انہیں وہ پاکیزہ اوصاف ، نیک خصائل ، عمدہ اقوال ، مختار افعال ، ظاہر دلیلیں ، اعلیٰ معجزے دیتا ہے کہ ہر عقل سلیم والا ، ہر دانا بینا مجبور ہو جاتا ہے کہ ان کی نبوت کو تسلیم کر لے اور ان کی سچائی کو مان لے ۔ اسی آیت جیسی اور آیت «وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِکَ إِلَّا رِجَالًا نٰوحِی إِلَیْہِم مِّنْ أَہْلِ الْقُرَیٰ» ۱؎ (12-یوسف:109) الخ ، ہے ۔ ’ یعنی تجھ سے پہلے بھی جتنے نبی آئے ، سب شہروں میں رہنے والے انسان ہی تھے ۔ ‘ اور آیت میں ہے «وَمَا جَعَلْنٰہُمْ جَسَدًا لَّا یَاْکُلُوْنَ الطَّعَامَ وَمَا کَانُوْا خٰلِدِیْنَ» ۱؎ (21-الأنبیاء:8) الخ ، ’ ہم نے انہیں ایسے جثے نہیں بنائے تھے کہ کھانے پینے سے وہ آزاد ہوں ۔ ‘ ہم تو تم میں سے ایک ایک کی آزمائش ایک ایک سے کر لیا کرتے ہیں تاکہ فرمانبردار اور نافرمان ظاہر ہو جائیں ۔ صابر اور غیر صابر معلوم ہو جائیں ۔ تیرا رب دانا و بینا ہے ، خوب جانتا ہے کہ مستحق نبوت کون ہے ؟ جیسے فرمایا «اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ سَیُصِیْبُ الَّذِیْنَ اَجْرَمُوْا صَغَارٌ عِنْدَ اللّٰہِ وَعَذَابٌ شَدِیْدٌ بِمَا کَانُوْا یَمْکُرُوْنَ» ۱؎ (6-الأنعام:124) ’ منصب رسالت کی اہلیت کس میں ہے ؟ اسے اللہ ہی بخوبی جانتا ہے ۔ ‘ اسی کو اس کا بھی علم ہے کہ مستحق ہدایت کون ہیں ؟ اور کون نہیں ؟ چونکہ اللہ کا ارادہ بندوں کا امتحان لینے کا ہے ، اس لیے نبیوں کو عموماً معمولی حالت میں رکھتا ہے ورنہ اگر انہیں بکثرت دنیا دیتا تو ان کے مال کے لالچ میں بہت سے ان کے ساتھ ہو جاتے تو پھر سچے جھوٹے مل جاتے ۔ صحیح مسلم میں ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں خود تجھے اور تیری وجہ سے اور لوگوں کو آزمانے والا ہوں ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2865) مسند میں ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : { اگر میں چاہتا تو میرے ساتھ سونے چاندی کے پہاڑ چلتے رہتے ۔ } ۱؎ (مسند ابویعلیٰ:4920:صحیح) اور صحیح حدیث میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی اور بادشاہ بننے میں اور نبی اور بندہ بننے میں اختیار دیا گیا تو آپ نے بندہ اور نبی بننا پسند فرمایا ۔ } ۱؎ (مسند احمد:231/2:صحیح) «فصلوات اللہ وسلامہ علیہ وعلی الہ واصحابہ اجمعین»