سورة البقرة - آیت 276

يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا اور صدقات کی پرورش [٣٩٥] کرتا ہے۔ اور اللہ کسی ناشکرے [٣٩٦] بدعمل انسان کو پسند نہیں کرتا۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

سود کا کاروبار برکت سے محروم ہوتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ سود کو برباد کرتا ہے یعنی یا تو اسے بالکل غارت کر دیتا ہے یا سودی کاروبار سے خیر و برکت ہٹا دیتا ہے علاوہ ازیں دنیا میں بھی وہ تباہی کا باعث بنتا ہے اور آخرت میں عذاب کا سبب ، جیسے ہے «قُل لَّا یَسْتَوِی الْخَبِیثُ وَالطَّیِّبُ وَلَوْ أَعْجَبَکَ کَثْرَۃُ الْخَبِیثِ» ( 5-المائدۃ : 100 ) ، یعنی ناپاک اور پاک برابر نہیں ہوتا گو تمہیں ناپاک کی زیادتی تعجب میں ڈالے ۔ ارشاد فرمایا آیت «وَیَجْعَلَ الْخَبِیثَ بَعْضَہُ عَلَیٰ بَعْضٍ فَیَرْکُمَہُ جَمِیعًا فَیَجْعَلَہُ فِی جَہَنَّمَ» ( 8-الأنفال : 37 ) ۔ الا یہ خباثت والی چیزوں کو تہ و بالا کر کے وہ جہنم میں جھونک دے گا اور جگہ ہے «وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَا۟ فِیْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰہِ» ( 30 ۔ الروم : 39 ) ، یعنی سود دے کر جو مال تم بڑھانا چاہتے ہو وہ دراصل بڑھتا نہیں ، اسی واسطے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ والی روایت میں ہے کہ سود سے اگر مال میں اضافہ ہو بھی جائے لیکن انجام کار کمی ہوتی ہے ۔ (مسند احمد:395/1:صحیح) مسند کی ایک اور روایت میں ہے کہ امیر المؤمنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ مسجد سے نکلے اور اناج پھیلا ہوا دیکھ کر پوچھا یہ غلہ کہاں سے آیا ؟ لوگوں نے کہا بکنے کیلئے آیا ہے ، آپ رضی اللہ عنہما نے دعا کی کہ اللہ اس میں برکت دے ، لوگوں نے کہا یہ غلہ گراں بھاؤ بیچنے کیلئے پہلے ہی جمع کر لیا تھا ، پوچھا کس نے جمع کیا تھا ، لوگوں نے کہا ایک تو فروخ نے جو عثمان کے مولی ہیں اور دوسرے آپ کے آزاد کردہ غلام نے ، آپ رضی اللہ عنہما نے دونوں کو بلوایا اور فرمایا تم نے ایسا کیوں کیا ؟ جواب دیا کہ ہم اپنے مالوں سے خریدتے ہیں اور جب چاہیں بیچیں ، ہمیں اختیار ہے ، آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا سنو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو شخص مسلمانوں میں مہنگا بیچنے کے خیال سے غلہ روک رکھے اسے اللہ مفلس کر دے گا ، یہ سن کر فروخ تو فرمانے لگے کہ میری توبہ ہے میں اللہ سے اور پھر آپ سے عہد کرتا ہوں کہ پھر یہ کام نہ کروں گا لیکن سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کے غلام نے پھر بھی یہی کہا کہ ہم اپنے مال سے خریدتے ہیں اور نفع اٹھا کر بیچتے ہیں ، اس میں کیا حرج ہے ؟ راوی حدیث ابویحییٰ فرماتے ہیں میں نے پھر دیکھا کہ اسے جذام ہو گیا اور جذامی ( کوڑھ ) بنا پھرتا تھا ، (مسند احمد:21/1:ضعیف) ابن ماجہ میں ہے جو شخص مسلمانوں کا غلہ گراں بھاؤ بیچنے کیلئے روک رکھے اللہ تعالیٰ اسے مفلس کر دے گا یا جذامی ۔ (سنن ابن ماجہ:2155 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) پھر فرماتا ہے وہ صدقہ کو بڑھاتا ہے ۔ «یُرۡبِی» کی دوسری قرأت «یُرَبّیَ» بھی ہے ، صحیح بخاری شریف کی حدیث میں ہے جو شخص اپنی پاک کمائی سے ایک کھجور بھی خیرات کرے اسے اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی داہنے ہاتھ لیتا ہے پھر اسے پال کر بڑا کرتا ہے ( جس طرح تم لوگ اپنے بچھڑوں کو پالتے ہو ) اور اس کا ثواب پہاڑ کے برابر بنا دیتا ہے ، (صحیح بخاری:1410:صحیح) اور پاک چیز کے سوا وہ ناپاک چیز کو قبول نہیں فرماتا ، ایک اور روایت میں ہے کہ ایک کھجور کا ثواب احد پہاڑ کے برابر ملتا ہے ، (سنن ترمذی:661 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور روایت میں ہے کہ ایک لقمہ مثل احد کے ہو کر ملتا ہے ، پس تم صدقہ خیرات کیا کرو ، پھر فرمایا ناپسندیدہ کافروں ، نافرمان زبان زور اور نافرمان فعل والوں کو اللہ پسند نہیں کرتا ، مطلب یہ ہے کہ جو لوگ صدقہ خیرات نہ کریں اور اللہ کی طرف سے صدقہ خیرات کے سبب مال میں اضافہ کے وعدہ کی پرواہ کئے بغیر دنیا کا مال دینار جمع کرتے پھریں اور بدترین اور خلاف شرع طریقوں سے کمائیاں کریں لوگوں کے مال باطل اور ناحق طریقوں سے کھا جائیں ، یہ اللہ کے دشمن ہیں ان ناشکروں اور گنہگاروں سے اللہ کا پیار ممکن نہیں- پھر ان بندوں کی تعریف ہو رہی ہے جو اپنے رب کے احکام کی بجا آوری کریں ، مخلوق کے ساتھ سلوک و احسان قائم کریں ، نمازیں قائم کریں ، زکوٰۃ دیتے رہیں ، یہ قیامت کے دن تمام دکھ درد سے امن میں رہیں گے کوئی کھٹکا بھی ان کے دل پر نہ گزرے گا بلکہ رب العالمین اپنے انعام و اکرام سے انہیں سرفراز فرمائے گا ۔