وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ وَأَنَّ اللَّهَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ
اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت شامل حال نہ ہوتی ( تو اس کے برے نتائج تمہارے سامنے آجاتے) اور اللہ تعالیٰ یقیناً بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے۔
شیطانی راہوں پر مت چلو یعنی اگر اللہ کا فضل و کرم ، لطف و رحم نہ ہوتا تو اس وقت کوئی اور ہی بات ہو جاتی مگر اس نے توبہ کرنے والوں کی توبہ قبول فرمالی ۔ پاک ہونے والوں کو بذریعہ حد شرعی کے پاک کردیا ۔ شیطانی طریقوں پر شیطانی راہوں میں نہ چلو ، اس کی باتیں نہ مانو ۔ وہ تو برائی کا ، بدی کا ، بدکاری کا ، بے حیائی کا حکم دیتا ہے ۔ پس تمہیں اس کی باتیں ماننے سے پرہیز کرنا چاہیئے ۔ اس کے عمل سے بچنا چاہیئے اس کے وسوسوں سے دور رہنا چاہے ۔ اللہ کی ہر نافرمانی میں قدم شیطان کی پیروی ہے ۔ ایک شخص نے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ” میں نے فلاں چیز کھانے کی قسم کھالی ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” یہ شیطان کا بہکاوا ہے ، اپنی قسم کا کفارہ دے دو اور اسے کھا لو “ ۔ ایک شخص نے شعبی رحمہ اللہ سے کہا کہ میں نے اپنے بچے کو ذبح کرنے کی نذر مانی ہے ۔ آپ رحمہ اللہ نے فرمایا ، ” یہ شیطانی حرکت ہے ، ایسا نہ کرو ، اس کے بدلے ایک بھیڑ ذبح کرو “ ۔ ابورافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ” ایک مرتبہ میرے اور میری بیوی کے درمیان جھگڑا ہو گیا ۔ وہ بگڑ کر کہنے لگیں کہ ایک دن وہ یہودیہ ہے اور ایک دن نصرانیہ ہے اور اس کے تمام غلام آزاد ہیں ، اگر تو اپنی بیوی کو طلاق نہ دے ۔ میں نے آ کر سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے یہ مسئلہ دریافت کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” یہ شیطانی حرکت ہے “ ۔ سیدہ زینب بن ام سلمہ رضی اللہ عنہا جو اس وقت سب سے زیادہ دینی سمجھ رکھنے والی عورت تھیں ، انہوں نے بھی یہی فتوی دیا اور عاصم بن عمرو رضی اللہ عنہ کی بیوی نے بھی یہی بتایا ۔ پھر فرماتا ہے ’ اگر اللہ کا فضل و کرم نہ ہوتا تو تم میں سے ایک بھی اپنے آپ کو شرک و کفر ، برائی اور بدی سے نہ بچا سکتا ۔ یہ رب کا احسان ہے کہ وہ تمہیں توبہ کی توفیق دتیا ہے پھر تم پر مہربانی سے رجوع کرتا ہے اور تمہیں پاک صاف بنا دیتا ہے ۔ اللہ جسے چاہے پاک کرتا ہے اور جسے چاہے ہلاکت کے گڑھے میں دھکیل دیتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی باتیں سننے والا ، ان کے احوال کو جاننے والا ہے ۔ ہدایت یاب اور گمراہ سب اس کی نگاہ میں ہیں اور اس میں بھی اس حکیم مطلق کی بے پایاں حکمت ہے ‘ ۔