وَلَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ قُلْتُم مَّا يَكُونُ لَنَا أَن نَّتَكَلَّمَ بِهَٰذَا سُبْحَانَكَ هَٰذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ
جب تم نے یہ قصہ سنا تھا تو تم نے یوں کیوں نہ [٢٠] کہہ دیا کہ : ''ہمیں یہ مناسب نہیں کہ ایسی بات کریں، سبحان اللہ! یہ تو بہت بڑا بہتان ہے''
پہلے تحقیق کرو پھر بولو پہلے تو نیک گمانی کا حکم دیا ۔ یہاں دوسرا حکم دے رہا ہے کہ ’ بھلے لوگوں کی شان میں کوئی برائی کا کلمہ بغیر تحقیق ہرگز نہ نکلنا چاہیئے ، برے خیالات ، گندے الزامات اور شیطانی وسوسوں سے دور رہنا چاہیئے ۔ کبھی ایسے کلمات زبان سے نہ نکالنے چاہیں ، گو دل میں کوئی ایسا وسوسہ شیطانی پیدا بھی ہو تو زبان قابو میں رکھنی چاہیئے ‘ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ { اللہ تعالیٰ نے میری امت کے دلوں میں پیدا ہونے والے وسوسوں سے درگزر فرما لیا ہے ، جب تک وہ زبان سے نہ کہیں یا عمل میں نہ لائیں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2528) تمہیں چاہیئے تھا کہ ایسے بے ہودہ کلام کو سنتے ہی کہہ دیتے کہ ہم ایسی لغویات سے اپنی زبان نہیں بگاڑتے ۔ ہم سے یہ بے ادبی نہیں ہو سکتی کہ اللہ کے خلیل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی صاحبہ کی نسبت کوئی ایسی لغویات کہیں ، اللہ کی ذات پاک ہے ۔ دیکھو خبردار آئندہ کبھی ایسی حرکت نہ ہو ورنہ ایمان کے ضبط ہونے کا اندیشہ ہے ۔ ہاں اگر کوئی شخص ایمان سے ہی کورا ہو تو وہ تو بے ادب ، گستاخ اور بھلے لوگوں کی اہانت کرنے والا ہوتا ہی ہے ۔ احکام شرعیہ کو اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے کھول کھول کر بیان فرما رہا ہے ۔ وہ اپنے بندوں کی مصلحتوں سے واقف ہے ۔ اس کا کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں ہوتا ۔