سورة طه - آیت 15

إِنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ أَكَادُ أُخْفِيهَا لِتُجْزَىٰ كُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعَىٰ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

قیامت یقیناً آنے والی ہے میں اسے ظاہر [١١] کرنے ہی والا ہوں تاکہ ہر شخص اپنی کوشش کا بدلہ پائے۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

. قیامت یقیناً آنے والی ہے ۔ ممکن ہے میں اس کے وقت کے صحیح علم کو ظاہر نہ کروں ۔ ایک قرأت میں «أُخْفِیہَا» کے بعد «مِنْ نَّفْسِیْ »کے لفظ بھی ہیں کیونکہ اللہ کی ذات سے کوئی چیز مخفی نہیں ۔ یعنی اس کا علم بجز اپنے کسی کو نہیں دوں گا ۔ پس روئے زمین پر کوئی ایسا نہیں ہوا جسے قیامت کے قائم ہونے کا مقررہ وقت معلوم ہو ۔ یہ وہ چیز ہے کہ اگر ہو سکے تو خود میں اپنے سے بھی اسے چھپا دوں لیکن رب سے کوئی چیز مخفی نہیں ہے ۔ چنانچہ یہ ملائکہ سے پوشیدہ ہے انبیاء اس سے بےعلم ہیں ۔ جیسے فرمان ہے « قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰہُ ۭ وَمَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ» (27-النمل:65) ’ زمین و آسمان والوں میں سے سوائے اللہ واحد کے کوئی اور غیب دان نہیں ۔ ‘ اور آیت میں ہے«ثَقُلَتْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا تَأْتِیکُمْ إِلَّا بَغْتَۃً» ۱؎ (7-الأعراف:187) قیامت زمین و آسمان پر بھاری پڑ رہی ہے ، وہ اچانک آ جائے گی یعنی اس کا علم کسی کو نہیں ۔ ایک قرأت میں «أُخْفِیہَا»ہے ۔ ورقہ فرماتے ہیں مجھے سعید بن جبیر رحمہ اللہ نے اسی طرح پڑھایا ہے ، اس کے معنی ہیں «اَظْھَرَھَا» ، اس دن ہر عامل کو اپنے عمل کا بدلہ دیا جائے گا خواہ ذرہ برابر نیکی ہو ، خواہ بدی ہو ، اپنے کرتوت کا بدلہ اس دن ضرور ملنا ہے ۔ پس کسی کو بھی بے ایمان لوگ بہکا نہ دیں ۔ قیامت کے منکر ، دنیا کے مفتوں ، مولا کے نافرمان ، خواہش کے غلام ، کسی اللہ کے بندے کے اس پاک عقیدے میں اسے تزلزل پیدا نہ کرنے پائیں ۔ اگر وہ اپنی چاہت میں کامیاب ہو گئے تو یہ غارت ہوا اور نقصان میں پڑا ۔