سورة مريم - آیت 24

فَنَادَاهَا مِن تَحْتِهَا أَلَّا تَحْزَنِي قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيًّا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اس وقت درخت کے نیچے سے (فرشتے نے) انھیں پکار کر کہا کہ: غمزدہ نہ ہو، تمہارے پروردگار نے تمہارے نیچے ایک چشمہ بہا دیا ہے۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

مریم علیہا السلام اور معجزات «مِنْ تَحْتِہَا» کی دوسری قرأت «مِنْ تَحْتَہَا» بھی ہے ۔ یہ خطاب کرنے والے جبرائیل علیہ السلام تھے ۔ عیسیٰ علیہ السلام کا تو پہلا کلام وہی تھا جو آپ نے اپنی والدہ کی برأت و پاکدامنی میں لوگوں کے سامنے کیا تھا ۔ اس وادی کے نیچے کے کنارے سے اس گھبراہٹ اور پریشانی کے عالم میں جبرائیل علیہ السلام نے یہ تشفی دی تھی ۔ یہ قول بھی کہا گیا ہے کہ یہ { بات عیسیٰ علیہ السلام نے ہی کہی تھی ۔ آواز آئی کہ غمگین نہ ہو تیرے قدموں تلے تیرے رب نے صاف شفاف شیریں پانی کا چشمہ جاری کر دیا ہے یہ پانی تم پی لو } ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:13303:ضعیف) ایک قول یہ ہے کہ اس چشمے سے مراد خود عیسیٰ علیہ السلام ہیں ۔ لیکن پہلا قول زیادہ ظاہر ہے ۔ چنانچہ اس پانی کے ذکر کے بعد ہی کھانے کا ذکر ہے کہ کھجور کے اس درخت کو ہلاؤ اس میں سے تروتازہ کھجوریں جھڑیں گی وہ کھاؤ ۔ کہتے ہیں یہ درخت سوکھا پڑا ہوا تھا اور یہ قول بھی ہے کہ پھل دار تھا ۔ بہ ظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت وہ درخت کھجوروں سے خالی تھا لیکن آپ کے ہلاتے ہی اس میں سے قدرت الٰہی سے کھجوریں جھڑنے لگیں ، کھانا پینا سب کچھ موجود ہو گیا اور اجازت بھی دے دی ۔ فرمایا کھا پی اور دل کو مسرور رکھ ۔ حضرت عمرو بن میمون رحمہ اللہ کا فرمان ہے کہ نفاس والی عورتوں کے لیے تر کھجوروں سے اور خشک کھجوروں سے بہتر اور کوئی چیز نہیں ۔ ایک حدیث میں ہے ، { کھجور کے درخت کا اکرام کرو ۔ یہ اسی مٹی سے پیدا ہوا ہے جس سے آدم علیہ السلام پیدا ہوئے تھے اس کے سوا اور کوئی درخت نر مادہ مل کر نہیں پھلتا ۔ عورتوں کو ولادت کے وقت تر کھجوریں کھلاؤ ، نہ ملیں تو خشک ہی سہی ۔ کوئی درخت اس سے بڑھ کر اللہ کے پاس مرتبے والا نہیں ۔ اسی لیے اس کے نیچے مریم علیہ السلام کو اتارا } ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:263،) یہ حدیث بالکل منکر ہے ۔ «تُسَاقِطْ» کی دوسری قرأت «تَسَّاقَطْ» اور «تُسْقِطْ» بھی ہے ۔ مطلب تمام قرأتوں کا ایک ہی ہے ۔ پھر ارشاد ہوا کہ ’ کسی سے بات نہ کرنا اشارے سے سمجھا دینا کہ میں آج روزے سے ہوں ‘ ۔ یا تو مراد یہ ہے کہ ان کے روزے میں کلام ممنوع تھا یا یہ کہ میں نے بولنے سے ہی روزہ رکھا ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہا کے پاس دو شخص آئے ، ایک نے تو سلام کیا ، دوسرے نے نہ کیا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا اس کی کیا وجہ ؟ لوگوں نے کہا اس نے قسم کھائی ہے کہ آج یہ کسی سے بات نہ کرے گا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اسے توڑ دے ، سلام کلام شروع کر ، یہ تو صرف مریم علیہا السلام کے لیے ہی تھا کیونکہ اللہ کو آپ کی صداقت وکرامت ثابت کرنا منظور تھی اس لیے اسے عذر بنا دیا تھا ۔ عبدالرحمٰن بن زید کہتے ہیں ، جب عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی والدہ سے کہا کہ ” آپ گھبرائیں نہیں “ ، تو آپ رضی اللہ عنہا نے کہا میں کیسے نہ گھبراؤں ، خاوند والی میں نہیں ، کسی کی ملکیت کی لونڈی باندی میں نہیں ، مجھے دنیا نہ کہے گی کہ یہ بچہ کیسے ہوا ؟ میں لوگوں کے سامنے کیا جواب دے سکوں گی ؟ کون سا عذر پیش کر سکوں گی ؟ ہاے کاش کہ میں اس سے پہلے ہی مرگئی ہوتی ، کاش کہ میں ”نسیا منسیا “ ہو گئی ہوتی ۔ اس وقت عیسیٰ علیہ السلام نے کہا ، ” اماں آپ کو کسی سے بولنے کی ضرورت نہیں ۔ میں آپ ان سب سے نمٹ لوں گا ۔ آپ تو انہیں صرف یہ سمجھا دینا کہ آج سے آپ نے چپ رہنے کی نذر مان لی ہے “ ۔