قَالَ لَهُ صَاحِبُهُ وَهُوَ يُحَاوِرُهُ أَكَفَرْتَ بِالَّذِي خَلَقَكَ مِن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ سَوَّاكَ رَجُلًا
اس کے ساتھی نے گفتگو کے دوران اسے کہا : ’’ کیا تو اس ذات کا [٣٧] انکار کرتا ہے جس نے تجھے مٹی سے، پھر نطفہ سے پیدا کیا، پھر تجھے پورا آدمی بنا دیا‘‘
احسان فراموشی مترادف کفر ہے اس کافر مالدار کو جو جواب اس مومن مفلس نے دیا اس کا بیان ہو رہا ہے کہ کس طرح اس نے وعظ و پند کی ، ایمان و یقین کی ہدایت کی اور گمراہی اور غرور سے ہٹانا چاہا ، فرمایا کہ تو اللہ کے ساتھ کفر کرتا ہے جس نے انسانی پیدائش مٹی سے شروع کی ، پھر اس کی نسل ملے جلے پانی سے جاری رکھی جیسے آیت «کَیْفَ تَکْفُرُونَ بِ اللہِ وَکُنتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْیَاکُمْ ثُمَّ یُمِیتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیکُمْ ثُمَّ إِلَیْہِ تُرْجَعُونَ» ( 2- البقرۃ : 28 ) میں ہے کہ تم اللہ کے ساتھ کیسے کفر کرتے ہو ؟ تم تو مردہ تھے اس نے تمہیں زندہ کیا ۔ تم اس کی ذات کا ، اس کی نعمتوں کا انکار کیسے کر سکتے ہو ؟ اس کی نعمتوں کے ، اس کی قدرتوں کے بےشمار نمونے خود تم میں اور تم پر موجود ہیں ۔ کون نادان ایسا ہے جو نہ جانتا ہو کہ وہ پہلے کچھ نہ تھا اللہ نے اسے موجود کر دیا ۔ وہ خودبخود اپنے ہونے پر قادر نہ تھا اللہ نے اس کا وجود پیدا کیا ۔ پھر وہ انکار کے لائق کیسے ہو گیا ؟ اس کی توحید الوہیت سے کون انکار کر سکتا ہے ۔ میں تو تیرے مقابلے میں کھلے الفاظ میں کہہ رہا ہوں کہ میرا رب وہی اللہ وحدہ لا شریک لہ ہے میں اپنے رب کے ساتھ مشرک بننا ناپسند کرتا ہوں ۔ پھر اپنے ساتھی کو نیک رغبت دلانے کے لیے کہتا ہے کہ اپنی لہلہاتی ہوئی کھیتی اور ہرے بھرے میووں سے لدے باغ کو دیکھ کر تو اللہ کا شکر کیوں نہیں کرتا ؟ کیوں «مَا شَاءَ اللَّہ لَا قُوَّۃ إِلَّا بِاَللَّہِ» نہیں کہتا ؟ اسی آیت کو سامنے رکھ کر بعض سلف کا مقولہ ہے کہ جسے اپنی اولاد یا مال یا حال پسند آئے اسے یہ کلمہ پڑھ لینا چاہیئے ۔ ابو یعلیٰ موصلی میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں «مَا أَنْعَمَ اللَّہ عَلَی عَبْد نِعْمَۃ مِنْ أَہْل أَوْ مَال أَوْ وَلَد فَیَقُول مَا شَاءَ اللَّہ لَا قُوَّۃ إِلَّا بِاَللَّہِ فَیُرَی فِیہِ آفَۃ دُون الْمَوْت» جس بندے پر اللہ اپنی کوئی نعمت انعام فرمائے ، اہل و عیال ہوں ، دولتمندی ہو ، فرزند ہوں ، پھر وہ اس کلمہ کو کہہ لے تو اس میں کوئی آنچ نہ آئے گی سوائے موت کے ، پھر آپ اس آیت «وَلَوْلَا إِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَکَ قُلْتَ مَا شَاءَ اللہُ لَا قُوَّۃَ إِلَّا بِ اللہِ إِن تَرَنِ أَنَا أَقَلَّ مِنکَ مَالًا وَوَلَدًا» ( 39 : الکہف ) کی تلاوت کرتے ۔ (البدایۃ و النھایۃ141/2:ضعیف) حافظ ابو الفتح کہتے ہیں یہ حدیث صحیح نہیں ۔ مسند احمد، صحیح البخاری، صحیح مسلم میں ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، کیا میں تمہیں جنت کا ایک خزانہ بتا دوں ؟ وہ خزانہ «لَا حَوْل وَلَا قُوَّۃ إِلَّا بِاَللَّہِ» کہنا ہے ۔ (صحیح بخاری:6384) اور روایت میں ہے کہ اللہ فرماتا ہے میرے اس بندے نے مان لیا اور اپنا معاملہ میرے سپرد کر دیا ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پھر پوچھا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، صرف لاحول نہیں بلکہ وہ جو سورۃ الکہف میں ہے یعنی «مَا شَاءَ اللَّہ لَا قُوَّۃ إِلَّا بِاَللَّہِ» ۔(مسند احمد:335/2:صحیح) پھر فرمایا کہ اس نیک شخص نے کہا کہ مجھے اللہ سے امید ہے کہ وہ مجھے آخرت کے دن اس سے بہتر نعمتیں عطا فرمائے اور تیرے اس باغ کو جسے تو ہمیشگی والا سمجھے بیٹھا ہے ، تباہ کر دے ۔ آسمان سے اس پر عذاب بھیج دے ۔ زور کی بارش آندھی کے ساتھ آئے ۔ تمام کھیت اور باغ اجڑ جائیں ۔ سوکھی صاف زمین رہ جائے گویا کہ کبھی یہاں کوئی چیز اگی ہی نہ تھی ۔ یا اس کی نہروں کا پانی دھنسا دے ۔ «غَوْرً» مصدر ہے معنی میں «غائر» کے بطور مبالغے کے لایا گیا ہے ۔