وَإِذَا أَرَدْنَا أَن نُّهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِيرًا
اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرلیتے ہیں تو وہاں کے عیش پرستوں کو حکم دیتے ہیں تو وہ بدکرداریاں [١٦] کرنے لگتے ہیں پھر اس بستی پر عذاب کی بات صادق آجاتی ہے تو ہم اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے ہیں۔
تقدیر اور ہمارے اعمال مشہور قرأت تو «أَمَرْنَا» ہے اس امر سے مراد تقدیری امر ہے جیسے اور آیت میں ہے : «أَتَاہَآ أَمْرُنَا لَیْلاً أَوْ نَہَارًا » ۱؎ (10-یونس:24) ’ یعنی وہاں ہمارہ مقرر کردہ امر آجاتا ہے ، رات کو یا دن کو ۔ ‘ یاد رہے کہ اللہ برائیوں کا حکم نہیں کرتا ۔ مطلب یہ ہے کہ وہ فحش کاریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور اس وجہ سے مستحق عذاب ہو جاتے ہیں کہ ہم انہیں اپنی اطاعت کے احکام کرتے ہیں اور برائیوں میں لگ جاتے ہیں پھر ہمارا سزا کا قول ان پر راست آ جاتا ہے جن کی قرأت «أَمُرْنَا »ہے وہ کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ وہاں کے سردار ہم بدکاروں کو بنا دیتے ہیں وہ وہاں اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں یہاں تک کہ عذاب الٰہی انہیں اس بستی سمیت تہس نہس کر دیتا ۔ جیسے فرمان ہے : «وَکَذلِکَ جَعَلْنَا فِی کُلِّ قَرْیَۃٍ أَکَـبِرَ مُجْرِمِیہَا» ۱؎ (6-الأنعام:123) ’ اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں وہاں کے رئیسوں ہی کو جرائم کا مرتکب بنایا ۔ ‘ سیدنا ابن عباسؓ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یعنی ہم ان کے دشمن بڑھا دیتے ہیں وہاں سرکشوں کی زیادتی کر دیتے ہیں ۔ مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے { بہترین مال جانور ہے جو زیادہ بچے دینے والا ہو یا راستہ ہے جو کھجور کے درختوں سے گھرا ہوا ہو ۔ } ۱؎ (مسند احمد:468/3:ضعیف) جیسے آپ کا قول ہے { گناہ والیاں نہ کہ اجر پانے والیاں ۔ ۱؎ } (سنن ابن ماجہ:1578،قال الشیخ الألبانی:ضعیف)