فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
پھر جب آپ قرآن پڑھنے لگیں تو شیطان مردود سے [١٠٢] اللہ کی پناہ مانگ لیا کریں
آعوذ کا مقصد اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی اپنے مومن بندوں کو حکم فرماتا ہے کہ ’ قرآن کریم کی تلاوت سے پہلے وہ اعوذ پڑھ لیا کریں ‘ ۔ یہ حکم فرضیت کے طور پر نہیں ۔ ابن جریر وغیرہ نے اس پر اجماع نقل کیا ہے ۔ آعوذ کی پوری بحث مع معنی وغیرہ کے ہم اپنی اس تفسیر کے شروع میں لکھ آئے ہیں فالحمداللہ ۔ اس حکم کی مصلحت یہ ہے کہ قاری قرآن میں الجھنے ، غور و فکر سے رک جانے اور شیطانی وسوسوں میں آنے سے بچ جائے ۔ اسی لیے جمہور کہتے ہیں کہ قرأت شروع کرنے سے پہلے آعوذ پڑھ لیا کر ۔ کسی کا قول یہ بھی ہے کہ ختم قرأت کے بعد پڑھے ۔ ان کی دلیل یہی آیت ہے لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے اور احادیث کی دلالت بھی اس پر ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ ایماندار متوکلین کو وہ ایسے گناہوں میں پھانس نہیں سکتا ، جن سے وہ توبہ ہی نہ کریں ۔ اس کی کوئی حجت ان کے سامنے چل نہیں سکتی ، یہ مخلص بندے اس کے گہرے مکر سے محفوظ رہتے ہیں ۔ ہاں جو اس کی اطاعت کریں ، اس کے کہے میں آ جائیں ، اسے اپنا دوست اور حمایتی ٹھہرا لیں ۔ اسے اللہ کی عبادتوں میں شریک کرنے لگیں ۔ ان پر تو یہ چھا جاتا ہے ‘ ۔ یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ “ ب “ کو «سبـبـیہ» بتلائیں یعنی وہ اس کی فرمانبرداری کے باعث اللہ کے ساتھ شرکت کرنے لگ جائیں ، یہ معنی بھی ہیں کہ وہ اسے اپنے مال میں ، اپنی اولاد میں شریک الہ ٹھہرا لیں ۔