وَلَقَدْ كَذَّبَ أَصْحَابُ الْحِجْرِ الْمُرْسَلِينَ
اور وادی حجر [٤٢] کے لوگوں نے (بھی) رسولوں کو جھٹلایا تھا
آل ثمود کی تباہیاں حجر والوں سے مراد ثمودی ہیں جنہوں نے اپنے نبی صالح علیہ السلام کو جھٹلایا تھا اور ظاہر ہے کہ ایک نبی علیہ السلام کا جھٹلانے والا گویا سب نبیوں کا انکار کرنے والا ہے ۔ اسی لیے فرمایا گیا کہ ’ انہوں نے نبیوں کو جھٹلایا ‘ ۔ ان کے پاس ایسے معجزے پہنچے جن سے صالح علیہ السلام کی سچائی ان پر کھل گئی ۔ جیسے کہ ایک سخت پتھر کی چٹان سے اونٹنی کا نکلنا جو ان کے شہروں میں چرتی چگتی تھی اور ایک دن وہ پانی پیتی تھی ایک دن شہروں کے جانور ۔ مگر پھر بھی یہ لوگ گردن کش ہی رہے بلکہ اس اونٹنی کو مار ڈالا ۔ اس وقت صالح علیہ السلام نے فرمایا «تَمَتَّعُوا فِی دَارِکُمْ ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ ذٰلِکَ وَعْدٌ غَیْرُ مَکْذُوبٍ» ۱؎ (11-ھود:65) ’ بس اب تین دن کے اندر اندر قہرِ الٰہی نازل ہو گا ۔ یہ بالکل سچا وعدہ ہے اور اٹل عذاب ہے ‘ ۔ ان لوگوں نے اللہ کی بتلائی ہوئی راہ پر بھی اپنے اندھاپے کو ترجیح دی ۔ یہ لوگ صرف اپنی قوت جتانے اور ریاکاری ظاہر کرنے کے واسطے تکبر و تجبر کے طور پر پہاڑوں میں مکان تراشتے تھے ۔ کسی خوف کے باعث یا ضرورتاً یہ چیز نہ تھی ۔ { جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک جاتے ہوئے ان کے مکانوں سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر پر کپڑا ڈال لیا اور سواری کو تیز چلایا اور اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ { جن پر عذاب الٰہی اترا ہے ان کی بستیوں سے روتے ہوئے گزرو ۔ اگر رونا نہ آئے تو رونے جیسی شکل بنا کر چلو کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ انہیں عذابوں کا شکار تم بھی بن جاؤ } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4419) آخر ان پر ٹھیک چوتھے دن کی صبح عذاب الٰہی بصورت چنگھاڑ آیا ۔ اس وقت ان کی کمائیاں کچھ کام نہ آئیں ۔ جن کھیتوں اور پھولوں کی حفاظت کے لیے اور انہیں بڑھانے کے لیے ان لوگوں نے اونٹنی کا پانی پینا نہ پسند کر کے اسے قتل کر دیا وہ آج بے سود ثابت ہوئے اور امر رب اپنا کام کر گیا ۔