فَأَخَذَتْهُمُ الصَّيْحَةُ مُشْرِقِينَ
آخر سورج نکلنے کے وقت انھیں زبردست دھماکے نے آلیا
آل ہود کا عبرتناک انجام سورج نکلنے کے وقت آسمان سے ایک دل دہلانے والی اور جگر پاش پاش کر دینے والی چنگھاڑ کی آواز آئی ۔ اور ساتھ ہی ان کی بستیاں اوپر کو اٹھیں اور آسمان کے قریب پہنچ گئیں اور وہاں سے الٹ دی گئیں اوپر کا حصہ نیچے اور نیچے کا حصہ اوپر ہو گیا ساتھ ہی ان پر آسمان سے پتھر برسے ایسے جیسے پکی مٹی کے کنکر آلود پتھر ہوں ۔ سورۃ ھود میں اس کا مفصل بیان ہوچکا ہے ۔ جو بھی بصیرت و بصارت سے کام لے ، دیکھے ، سنے ، سوچے ، سمجھے اس کے لیے ان بستیوں کی بربادی میں بڑی بڑی نشانیاں موجود ہیں ۔ ایسے پاکباز لوگ ذرا ذرا سی چیزوں سے بھی عبرت و نصیحت حاصل کرتے ہیں پند پکڑتے ہیں اور غور سے ان واقعات کو دیکھتے ہیں اور مقصد تک پہنچ جاتے ہیں ۔ تامل اور غور و خوض کر کے اپنی حالت سنوار لیتے ہیں ۔ ترمذی وغیرہ میں حدیث ہے { رسول اللہ صلی علیہ وسلم فرماتے ہیں { مومن کی عقلمندی اور دور بینی کا لحاظ رکھو وہ اللہ کے نور کے ساتھ دیکھتا ہے } ۔ پھر آپ نے یہی آیات تلاوت فرمائی } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3127،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اور حدیث میں ہے کہ { وہ اللہ کے نور اور اللہ کی توفیق سے دیکھتا ہے } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:21255:ضعیف) اور حدیث میں ہے کہ { اللہ کے بندے لوگوں کو ان نشانات سے پہچان لیتے ہیں } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:21252:حسن) یہ بستی شارع عام پر موجود ہے جس پر ظاہری اور باطنی عذاب آیا ، الٹ گئی ، پتھر کھائے ، عذاب کا نشانہ بنی ۔ اب ایک گندے اور بد مزہ کھائی کی جھیل سے بنی ہوئی ہے ۔ «وَإِنَّکُمْ لَتَمُرٰونَ عَلَیْہِم مٰصْبِحِینَ وَبِاللَّیْلِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ» ۱؎ (37-الصفات:137،138) ’ تم رات دن وہاں سے آتے جاتے ہو تعجب ہے کہ پھر بھی عقلمندی سے کام نہیں لیتے ‘ ۔ غرض صاف واضح اور آمد و رفت کے راستے پر یہ الٹی ہو بستی موجود ہے ۔ یہ بھی معنی کئے ہیں کہ «وَکُلَّ شَیْءٍ أَحْصَیْنَاہُ فِی إِمَامٍ مٰبِینٍ» ۱؎ (36-یس:12) ’ کتاب مبین میں ہے ‘ لیکن یہ معنی کچھ زیادہ بند نہیں بیٹھتے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے والوں کے لیے یہ ایک کھلی دلیل اور جاری نشانی ہے کہ کس طرح اللہ اپنے والوں کو نجات دیتا ہے اور اپنے دشمنوں کو غارت کرتا ہے ۔