سورة ابراھیم - آیت 18

مَّثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ ۖ أَعْمَالُهُمْ كَرَمَادٍ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ فِي يَوْمٍ عَاصِفٍ ۖ لَّا يَقْدِرُونَ مِمَّا كَسَبُوا عَلَىٰ شَيْءٍ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الضَّلَالُ الْبَعِيدُ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

جن لوگوں نے اپنے پروردگار سے کفر کیا ان کے اعمال کی مثال اس راکھ کی [٢١] سی ہے جسے آندھی کے دن تیز ہوا نے اڑا دیا ہو۔ یہ لوگ اپنے کئے کرائے میں سے کچھ بھی نہ پاسکیں گے۔ یہی پرلے درجہ کی گم گشتگی ہے

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

بے سود اعمال کافر جو اللہ کے ساتھ دوسروں کی عبادتوں کے خوگر تھے پیغمبروں کی نہیں مانتے تھے جن کے اعمال ایسے تھے جیسے بنیاد کے بغیر عمارت ہو جن کا نتیجہ یہ ہوا کہ سخت ضرورت کے وقت خالی ہاتھ کھڑے رہ گئے ۔ پس فرمان ہے کہ ’ ان کافروں کی یعنی ان کے اعمال کی مثال ۔ قیامت کے دن جب کہ یہ پورے محتاج ہوں گے سمجھ رہے ہوں گے کہ اب ابھی ہماری بھلائیوں کا بدلہ ہمیں ملے گا لیکن کچھ نہ پائیں گے ، مایوس رہ جائیں گے ، حسرت سے منہ تکنے لگیں گے ‘ ۔ «وَقَدِمْنَا إِلَیٰ مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاہُ ہَبَاءً مَّنثُورًا» ۱؎ (25-الفرقان:23) جیسے تیز آندھی والے دن ہوا راکھ کو اڑا کر ذرہ ذرہ ادھر ادھر بکھیر دے اسی طرح ان کے اعمال محض اکارت ہو گئے جیسے اس بکھری ہوئی اور اڑی ہوئی راکھ کا جمع کرنا محال ایسے ہی ان کے بےسود اعمال کا بدلہ محال ۔ وہ تو وہاں ہوں گے ہی نہیں ان کے آنے سے پہلے ہی «ھَبَاۤءً مَّنْشُوْراً» ہو گئے ۔ «مَثَلُ مَا یُنْفِقُونَ فِی ہَذِہِ الْحَیَاۃِ الدٰنْیَا کَمَثَلِ رِیحٍ فِیہَا صِرٌّ أَصَابَتْ حَرْثَ قَوْمٍ ظَلَمُوا أَنْفُسَہُمْ فَأَہْلَکَتْہُ» ۱؎ (3-آل عمران:117) ’ یہ کفار جو کچھ اس حیات دنیا میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس آگ کے گولے جیسی ہے جو ظالموں کی کھیتی جھلسا دے ۔ اللہ ظالم نہیں لیکن وہ اپنے اوپر خود ظلم کرتے ہیں ‘ ۔ اور آیت میں ہے کہ «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِکُم بِالْمَنِّ وَالْأَذَیٰ کَالَّذِی یُنفِقُ مَالَہُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا یُؤْمِنُ بِ اللہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَمَثَلُہُ کَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیْہِ تُرَابٌ فَأَصَابَہُ وَابِلٌ فَتَرَکَہُ صَلْدًا لَّا یَقْدِرُونَ عَلَیٰ شَیْءٍ مِّمَّا کَسَبُوا وَ اللہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْکَافِرِینَ» ۱؎ (2-البقرہ:264) ’ ایمان والو ! اپنے صدقے خیرات احسان رکھ کر اور ایذاء دے کر برباد نہ کرو جیسے وہ جو ریا کاری کے لیے خرچ کرتا ہو اور اللہ پر اور قیامت پر ایمان نہ رکھتا ہو اس کی مثال اس چٹان کی طرح ہے جس پر مٹی تھی لیکن بارش کے پانی نے اسے دھو دیا اب وہ بالکل صاف ہو گیا یہ لوگ اپنی کمائی میں سے کسی چیز پر قادر نہیں اللہ تعالیٰ کافروں کی رہبری نہیں فرماتا ‘ ۔ اس آیت میں ارشاد ہوا کہ ’ یہ دور کی گمراہی ہے ان کی کوشش ان کے کام بے پایہ اور بے ثبات ہیں سخت حاجت مندی کے وقت ثواب گم پائیں گے یہی انتہائی بد قسمتی ہے ‘ ۔