وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّكُم مِّنْ أَرْضِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا ۖ فَأَوْحَىٰ إِلَيْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظَّالِمِينَ
آخر کافروں نے اپنے رسول سے کہہ دیا کہ : ہم تمہیں اپنے ملک [١٧] سے نکال دیں گے یا تمہیں واپس ہمارے دین میں آنا ہوگا: تب ان کے پروردگار نے ان کی طرف [١٨] وحی کی کہ ہم ان ظالموں کو یقیناً ہلاک کردیں گے
آل لوط کافر جب تنگ ہوئے ، کوئی حجت باقی نہ رہی تو نبیوں کو دھمکانے لگے اور دیس نکالنے سے ڈرانے لگے ۔ قوم شعیب نے بھی اپنے نبی اور مومنوں سے یہی کہا تھا کہ «لَنُخْرِجَنَّکَ یَا شُعَیْبُ وَالَّذِینَ آمَنُوا مَعَکَ مِن قَرْیَتِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِی مِلَّتِنَا» ۱؎ (7-الأعراف:88) ’ ہم تمہیں اپنی بستی سے نکال دیں گے ‘ ۔ لوطیوں نے بھی یہی کہا تھا کہ «أَخْرِجُوا آلَ لُوطٍ مِّن قَرْیَتِکُمْ إِنَّہُمْ أُنَاسٌ یَتَطَہَّرُونَ» ۱؎ (27-النمل:55) ’ آل لوط کو اپنے شہر سے نکال دو ، وہ اگرچہ مکر کرتے تھے لیکن اللہ بھی ان کے داؤ میں تھا ‘ ۔ اور آیت میں ہے کہ «وَإِن کَادُوا لَیَسْتَفِزٰونَکَ مِنَ الْأَرْضِ لِیُخْرِجُوکَ مِنْہَا وَإِذًا لَّا یَلْبَثُونَ خِلَافَکَ إِلَّا قَلِیلًا» ۱؎ (17-الاسراء:76) ’ یہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم اس سر زمین سے اکھاڑنے ہی لگے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے نکال دیں ۔ پھر یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بہت ہی کم ٹھہر پاتے ‘ ۔ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلامتی کے ساتھ مکے سے لے گیا مدینے والوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انصار و مددگار بنا دیا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر میں شامل ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے کافروں سے لڑے اور بتدریج اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ترقیاں دیں یہاں تک کہ بالآخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ بھی فتح کر لیا ۔ اور آیت میں ہے «وَإِذْ یَمْکُرُ بِکَ الَّذِینَ کَفَرُوا لِیُثْبِتُوکَ أَوْ یَقْتُلُوکَ أَوْ یُخْرِجُوکَ وَیَمْکُرُونَ وَیَمْکُرُ اللہُ وَ اللہُ خَیْرُ الْمَاکِرِینَ» ۱؎ (8-الأنفال:30) ’ اور اس واقعہ کا بھی ذکر کیجئے ! جب کہ کافر لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت تدبیر سوچ رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قید کر لیں ، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر ڈالیں یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خارج وطن کر دیں اور وہ تو اپنی تدبیریں کر رہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر کر رہا تھا اور سب سے زیادہ مستحکم تدبیر والا اللہ ہے ‘ ۔ اب تو دشمنان دین کے منصوبے خاک میں مل گئے ان کی امیدوں پر اوس پڑ گئی ان کی آرزویں پامال ہو گئیں ۔ اللہ کا دین لوگوں کے دلوں میں مضبوط ہو گیا ، جماعتوں کی جماعتیں دین میں داخل ہونے لگیں ، تمام روئے زمین کے ادیان پر دین اسلام چھا گیا ، کلمہ حق بلند و بالا ہو گیا اور تھوڑے سے زمانے میں مشرق سے مغرب تک اشاعت اسلام ہو گئی «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» ۔ یہاں فرمان ہے کہ ’ ادھر کفار نے نبیوں کو دھمکایا ادھر اللہ نے ان سے سچا وعدہ فرمایا کہ یہی ہلاک ہوں گے اور زمین کے مالک تم بنو گے ‘ ۔