وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَسْتَ مُرْسَلًا ۚ قُلْ كَفَىٰ بِاللَّهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَمَنْ عِندَهُ عِلْمُ الْكِتَابِ
کافر آپ سے کہتے ہیں کہ : ’’آپ رسول نہیں ہیں‘‘ آپ ان سے کہئے: ’’میرے اور تمہارے درمیان [٥٥] اللہ کی گواہی کافی ہے اور ہر اس شخص کی بھی جو الہامی کتاب کا علم رکھتا ہے‘‘
رسالت کے منکر ’ کافر تجھے جھٹلا رہے ہیں ۔ تیری رسالت کے منکر ہیں ۔ تو غم نہ کر کہہ دیا کر کہ اللہ کی شہادت کافی ہے ۔ تیری نبوت کا وہ خود گواہ ہے ، میری تبلیغ پر ، تمہاری تکذیب پر ، وہ شاہد ہے ۔ میری سچائی ، تمہاری تکذیب کو وہ دیکھ رہا ہے ‘ ۔ علم کتاب جس کے پاس ہے اس سے مراد عبداللہ بن سلام ہیں رضی اللہ عنہ ۔ یہ قول مجاہد رحمہ اللہ وغیرہ کا ہے لیکن بہت غریب قول ہے اس لیے کہ یہ آیت مکہ شریف میں اتری ہے اور عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ تو ہجرت کے بعد مدینے میں مسلمان ہوئے ہیں ۔ اس سے زیادہ ظاہر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ ” یہود و نصاری کے حق گو عالم مراد ہیں ہاں ان میں عبداللہ بن سلام بھی ہیں ، سلمان اور تمیم داری وغیرہ رضی اللہ عنہم بھی “ ۔ مجاہد رحمہ اللہ سے ایک روایت میں مروی ہے کہ اس سے مراد بھی خود اللہ تعالیٰ ہے ۔ سعید رحمہ اللہ اس سے انکاری تھے کہ اس سے مراد عبداللہ بن سلام لیے جائیں کیونکہ یہ آیت مکیہ ہے اور آیت کو «مِنْ عِنْدِ اللہِ » پڑھتے تھے ۔ یہی قرأت مجاہد اور حسن بصری رحمہ اللہ علیہم سے بھی مروی ہے ۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی قرأت ہے لیکن وہ حدیث ثابت نہیں ۔ ۱؎ (مسند ابویعلیٰ:5574:ضعیف) صحیح بات یہی ہے کہ یہ اسم جنس ہے ہر وہ عالم جو اگلی کتاب کا علم ہے اس میں داخل ہے ان کی کتابوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت موجود تھی ۔ ان کے نبیوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت پیش گوئی کر دی تھی ۔ جیسے فرمان رب ذی شان ہے «وَرَحْمَتِی وَسِعَتْ کُلَّ شَیْءٍ فَسَأَکْتُبُہَا لِلَّذِینَ یَتَّقُونَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاۃَ وَالَّذِینَ ہُم بِآیَاتِنَا یُؤْمِنُونَ الَّذِینَ یَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِیَّ الْأُمِّیَّ الَّذِی یَجِدُونَہُ مَکْتُوبًا عِندَہُمْ فِی التَّوْرَاۃِ وَالْإِنجِیلِ» ۱؎ (7-الأعراف:156-157) یعنی ’ میری رحمت نے تمام چیزوں کو گھیر رکھا ہے میں اسے ان لوگوں کے نام لکھ دوں گا جو متقی ہیں ، زکوٰۃ کے ادا کرنے والے ہیں ، ہماری آیتوں پر ایمان رکھنے والے ہیں ، رسول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والے ہیں ، جس کا ذکر اپنی کتاب تورات وانجیل میں موجود پاتے ہیں ‘ ۔ اور آیت میں ہے کہ «أَوَلَمْ یَکُن لَّہُمْ آیَۃً أَن یَعْلَمَہُ عُلَمَاءُ بَنِی إِسْرَائِیلَ» ۱؎ (26-الشعراء:197) ’ کیا یہ بات بھی ان کے لیے کافی نہیں کہ اس کے حق ہونے کا علم علماء بنی اسرائیل کو بھی ہے ‘ ۔ ایک بہت ہی غریب حدیث میں ہے کہ { عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے علمائے یہود سے کہا کہ میرا ارادہ ہے کہ اپنے باپ ابراہیم و اسماعیل علیہم السلام کی مسجد میں جا کر عید منائیں ، مکے پہنچے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہیں تھے ، یہ لوگ جب حج سے لوٹے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مجلس میں تشریف فرما تھے اور لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے ۔ یہ بھی مع اپنے ساتھیوں کے کھڑے ہو گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف دیکھ کر پوچھا کہ آپ ہی عبداللہ بن سلام ہیں ، کہا ہاں فرمایا : { قریب آؤ } جب قریب گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کیا تم میرا ذکر تورات میں نہیں پاتے ؟ “ ، انہوں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے اوصاف میرے سامنے بیان فرمائیے ۔ اسی وقت جبرائیل علیہ السلام آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑے ہو گئے اور حکم دیا کہ کہو آیت «قُلْ ہُوَ اللہُ أَحَدٌ اللہُ الصَّمَدُ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُولَدْ وَلَمْ یَکُن لَّہُ کُفُوًا أَحَدٌ» ۱؎ (112-الإخلاص:4-1) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری سورت پڑھ سنائی ۔ ابن سلام نے اسی وقت کلمہ پڑھ لیا ، مسلمان ہو گئے ، مدینے واپس چلے آئے لیکن اپنے اسلام کو چھپائے رہے ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینے پہنچے اس وقت آپ کھجور کے ایک درخت پر چڑھے ہوئے کھجوریں اتار رہے تھے جو آپ کو خبر پہنچی اسی وقت درخت سے کود پڑے ۔ ماں کہنے لگیں کہ اگر موسیٰ علیہ السلام بھی آ جاتے تو تم درخت سے نہ کودتے ۔ کیا بات ہے ؟ جواب دیا کہ اماں جی موسیٰ علیہ السلام کی نبوت سے بھی زیادہ خوشی مجھے ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی یہاں تشریف آوری سے ہوئی ہے } ۔ ۱؎ (ابو نعیم فی الدلائل:246:ضعیف و باطل) اس میں انقطاع ہے ۔ «اَلْحَمْدُ لِلہِ» سورۂ رعد کی تفسیر ختم ہوئی ۔