وَلَوْ أَنَّ قُرْآنًا سُيِّرَتْ بِهِ الْجِبَالُ أَوْ قُطِّعَتْ بِهِ الْأَرْضُ أَوْ كُلِّمَ بِهِ الْمَوْتَىٰ ۗ بَل لِّلَّهِ الْأَمْرُ جَمِيعًا ۗ أَفَلَمْ يَيْأَسِ الَّذِينَ آمَنُوا أَن لَّوْ يَشَاءُ اللَّهُ لَهَدَى النَّاسَ جَمِيعًا ۗ وَلَا يَزَالُ الَّذِينَ كَفَرُوا تُصِيبُهُم بِمَا صَنَعُوا قَارِعَةٌ أَوْ تَحُلُّ قَرِيبًا مِّن دَارِهِمْ حَتَّىٰ يَأْتِيَ وَعْدُ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ
اور اگر قرآن ایسا ہوتا کہ اس (کے زور) سے پہاڑ چلائے جاسکتے یا زمین کے طویل فاصلے فوراً طے کئے جاسکتے یا اس کے ذریعہ مردوں [٤١] سے کلام کیا جاسکتا، تو بھی یہ کافر ایمان نہ لاتے بلکہ ایسے سب امور [٤٢] اللہ ہی کے اختیار میں ہیں۔ کیا اہل ایمان (ابھی تک کافروں کی مطلوبہ نشانی آنے سے) مایوس نہیں ہوئے کیونکہ اگر اللہ چاہتا تو (نشانی کے بغیر بھی) تمام لوگوں کو ہدایت دے سکتا تھا۔ اور کافروں کو تو ان کی کرتوتوں کی وجہ سے کوئی نہ کوئی مصیبت پہنچتی ہی رہے گی یا ان کے گھر کے قریب اترتی [٤٣] رہے گی تاآنکہ اللہ کا وعدہ (عذاب) آجائے۔ یقیناً اللہ اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتا
قرآن حکیم کی صفات جلیلہ اللہ تعالیٰ اس پاک کتاب قرآن کریم کی تعریفیں بیان فرما رہا ہے اگر ’ سابقہ کتابوں میں کسی کتاب کے ساتھ پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جانے والے اور زمین پھٹ جانے والی اور مردے جی اٹھنے والے ہوتے تو یہ قرآن جو تمام سابقہ کتابوں سے بڑھ چڑھ کر ہے ان سب سے زیادہ اس بات کا اہل تھا اس میں تو وہ معجز بیانی ہے کہ سارے جنات وانسان مل کر بھی اس جیسی ایک سورت نہ بنا کر لا سکے ۔ یہ مشرکین اس کے بھی منکر ہیں تو معاملہ سپرد رب کرو ۔ وہ مالک کل کہ ، تمام کاموں کا مرجع وہی ہے ، وہ جو چاہتا ہے ہو جاتا ہے ، جو نہیں چاہتا ہرگز نہیں ہوتا ۔ اس کے بھٹکائے ہوئے کی رہبری اور اس کے راہ دکھائے ہوئے کی گمراہی کسی کے بس میں نہیں ‘ ۔ یہ یاد رہے کہ قرآن کا اطلاق اگلی الہامی کتابوں پر بھی ہوتا ہے اس لیے کہ وہ سب سے مشتق ہے ۔ مسند میں ہے { داؤد علیہ السلام پر قرآن اس قدر آسان کردیا گیا تھا کہ ان کے حکم سے سواری کسی جاتی اس کے تیار ہونے سے پہلے ہی وہ قرآن کو ختم کر لیتے ، سوا اپنے ہاتھ کی کمائی کے وہ اور کچھ نہ کھاتے تھے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3417) پس مراد یہاں قرآن سے زبور ہے ۔ ’ کیا ایماندار اب تک اس سے مایوس نہیں ہوئے کہ تمام مخلوق ایمان نہیں لائے گی ۔ کیا وہ مشیت الٰہی کے خلاف کچھ کر سکتے ہیں ۔ رب کی یہ منشا ہی نہیں اگر ہوتی تو روئے زمین کے لوگ مسلمان ہو جاتے ۔ بھلا اس قرآن کے بعد کس معجزے کی ضرورت دنیا کو رہ گئی ؟ اس سے بہتر واضح ، اس سے صاف ، اس سے زیادہ دلوں میں گھر کرنے والا اور کون سا کلام ہوگا ؟ اسے تو اگر بڑے سے بڑے پہاڑ پر اتارا جاتا تو وہ بھی خشیت الٰہی سے چکنا چور ہو جاتا ‘ ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { ہر نبی کو ایسی چیز ملی کہ لوگ اس پر ایمان لائیں ۔ میری ایسی چیز اللہ کی یہ وحی ہے پس مجھے امید ہے کہ سب نبیوں سے زیادہ تابعداروں والا میں ہو جاؤں گا } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4981) مطلب یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے معجزے ان کے ساتھ ہی چلے گئے اور میرا یہ معجزہ جیتا جاگتا رہتی دنیا تک رہے گا ، نہ اس کے عجائبات ختم ہوں نہ یہ کثرت تلاوت سے پرانا ہو نہ اس سے علماء کا پیٹ بھر جائے ۔ یہ فضل ہے دل لگی نہیں ۔ جو سرکش اسے چھوڑ دے گا اللہ اسے توڑ دے گا جو اس کے سوا اور میں ہدایت تلاش کرے گا اسے اللہ گمراہ کردے گا ۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ { کافروں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں کے پہاڑ یہاں سے ہٹوا دیں اور یہاں کی زمین زراعت کے قابل ہو جائے اور جس طرح سیلمان علیہ السلام زمین کی کھدائی ہوا سے کراتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی کرا دیجئیے یا جس طرح عیسیٰ علیہ السلام مردوں کو زندہ کر دیتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی کر دیجئیے اس پر یہ آیت اتری } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:20398:ضعیف) قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ” اگر کسی قرآن کے ساتھ یہ امور ظاہر ہوتے تو اس تمہارے قرآن کے ساتھ بھی ہوتے سب کچھ اللہ کے اختیار میں ہے لیکن وہ ایسا نہیں کرتا تاکہ تم سب کو آزما لے اپنے اختیار سے ایمان لاؤ یا نہ لاؤ ۔ کیا ایمان والے نہیں جانتے ؟ «یَیْأَسِ» کے بدلے دوسری جگہ «یَتَبَیَّنِ» بھی ہے ، ایماندار ان کی ہدایت سے مایوس ہو چکے تھے ۔ ہاں اللہ کے اختیار میں کسی کا بس نہیں وہ اگر چاہے تمام مخلوق کو ہدایت پر کھڑا کر دے ۔ یہ کفار برابر دیکھ رہے ہیں کہ ان کے جھٹلانے کی وجہ سے اللہ کے عذاب برابر ان پر برستے رہتے ہیں یا ان کے آس پاس آ جاتے ہیں پھر بھی یہ نصیحت حاصل نہیں کرتے ؟ جیسے فرمان ہے «وَلَقَدْ اَہْلَکْنَا مَا حَوْلَکُمْ مِّنَ الْقُرٰی وَصَرَّفْنَا الْاٰیٰتِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ» ۱؎ (46 ۔ الأحقاف:27) یعنی ’ ہم نے تمہارے آس پاس کی بہت سی بستیوں کو ان کی بد کرداریوں کی وجہ سے غارت و برباد کر دیا اور طرح طرح سے اپنی نشانیاں ظاہر فرمائیں کہ لوگ برائیوں سے باز رہیں ‘ ۔ اور آیت میں ہے «أَفَلَا یَرَوْنَ أَنَّا نَأْتِی الْأَرْضَ نَنقُصُہَا مِنْ أَطْرَافِہَا أَفَہُمُ الْغَالِبُونَبِ» ۱؎ (21-الأنبیاء:44) ’ کیا وہ نہیں دیکھ رہے کہ ہم زمین کو گھٹاتے چلے آ رہے ہیں کیا اب بھی اپنا ہی غلبہ مانتے چلے جائیں گے ؟ ‘ «تَحُلٰ» کا فاعل «قَارِعَۃٌ» ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:391/7:) یہی ظاہر اور مطابق روانی عبارت ہے لیکن ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ «قَارِعَۃٌ» پہنچے یعنی چھوٹا سا لشکر اسلامی یا تو خود ان کے شہر کے قریب اتر پڑے یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہاں تک کہ وعدہ ربانی آ پہنچے اس سے مراد فتح مکہ ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہما سے ہی مروی ہے کہ «قَارِعَۃٌ» سے مراد آسمانی عذاب ہے اور آس پاس اترنے سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے لشکروں سمیت ان کی حدود میں پہنچ جانا ہے اور ان سے جہاد کرنا ہے ۔ ان سب کا قول ہے کہ یہاں وعدہ الٰہی سے مراد فتح مکہ ہے ۔ لیکن حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد قیامت کا دن ہے ۔ اللہ کا وعدہ اپنے رسولوں کی نصرت وامداد کا ہے وہ کبھی ٹلنے والا نہیں انہیں اور ان کے تابعداروں کو ضرور بلندی نصیب ہو گی ۔ جیسے فرمان ہے «فَلَا تَحْسَبَنَّ اللہَ مُخْلِفَ وَعْدِہِ رُسُلَہُ إِنَّ اللہَ عَزِیزٌ ذُو انتِقَامٍ» ۱؎ (14-ابراھیم:47) ’ یہ غلط گمان ہرگز نہ کرو کہ اللہ اپنے رسولوں سے وعدہ خلافی کرے ۔ اللہ غالب ہے اور بدلہ لینے والا ‘ ۔