سورة الرعد - آیت 23

جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا وَمَن صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ ۖ وَالْمَلَائِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِم مِّن كُلِّ بَابٍ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

وہ گھر جو ہمیشہ قائم رہنے والے باغ ہیں جن میں وہ داخل ہوں گے اور ان کے ساتھ ان کے آباء و اجداد، ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے جو نیک ہوں گے [٣٣] وہ بھی داخل ہوں گے اور فرشتے (جنت کے) ہر دروازے سے ان کے استقبال کو آئیں گے

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

بروج و بالا خانے وہ اچھا انجام اور بہترین گھر جنت ہے جو ہمیشگی والی اور پائیدار ہے ۔ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں جنت کے ایک محل کا نام عدن ہے جس میں بروج اور بالاخانے ہیں جس کے پانچ ہزار دروازے ہیں ، ہر دروازے پر پانچ ہزار فرشتے ہیں ۔ وہ محل مخصوص ہے نبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں کے لیے ۔ ضحاک رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ جنت کا شہر ہے جس میں انبیاء ہوں گے شہداء ہوں گے اور ہدایت کے ائمہ ہوں گے ۔ ان کے آس پاس اور لوگ ہوں گے اور ان کے اردگرد اور جنتیں ہیں وہاں یہ اپنے اور چہیتوں کو بھی اپنے ساتھ دیکھیں گے ۔ ان کے بڑے باپ دادے ، ان کے چھوٹے بیٹے پوتے ، ان کے جوڑے جو بھی ایماندار اور نیکو کار تھے ان کے پاس ہوں گے اور راحتوں سے مسرور ہوں گے جس سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں گی ۔ یہاں تک کہ اگر کسی کے عمل اس درجہ بلند تک پہنچنے کے قابل نہ بھی ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے درجے بڑھا دے گا جیسے «وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْہُمْ ذُرِّیَّــتُہُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْحَـقْنَا بِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَمَآ اَلَتْنٰہُمْ مِّنْ عَمَلِہِمْ مِّنْ شَیْءٍ کُلٰ امْرِی بِمَا کَسَبَ رَہِیْنٌ» ۱؎ (52-الطور:21) ’ جن ایمانداروں کی اولاد ان کی پیروی ایمان میں کرتی ہے ہم انہیں بھی ان کے ساتھ ملا دیتے ہیں ان کے پاس مبارک باد اور سلام کے لیے ہر ہر دروازے سے ہر وقت فرشتے آتے رہتے ہیں یہ بھی اللہ کا انعام ہے تاکہ یہ ہر وقت خوش رہیں اور بشارتیں سنتے رہیں ‘ ۔ نبیوں ، صدیقوں ، شہیدوں کا پڑوس ، فرشتوں کا سلام اور جنت الفردوس مقام ۔ مسند کی حدیث میں ہے { جانتے بھی ہو کہ سب سے پہلے جنت میں کون جائیں گے ؟ لوگوں نے کہا اللہ کو علم ہے اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ۔ فرمایا : سب سے پہلے جنتی مساکین مہاجرین ہیں جو دنیا کی لذتوں سے دور تھے جو تکلیفوں میں مبتلا تھے جن کی امنگیں دلوں میں ہی رہ گئیں اور قضاء آگئی ۔ رحمت کے فرشتوں کو حکم الٰہی ہوگا کہ ’ جاؤ انہیں مبارک باد دو ‘ فرشتے کہیں گے ” اللہ ہم تیرے آسمانوں کے رہنے والے تیری بہترین مخلوق ہیں کیا تو ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم جا کر انہیں سلام کریں اور انہیں مبارک باد پیش کریں “ جناب باری جواب دے گا ’ یہ میرے وہ بندے ہیں جنہوں نے صرف میری عبادت کی میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا دنیوی راحتوں سے محروم رہے مصیبتوں میں مبتلا رہے کوئی مراد پوری ہونے نہ پائی اور یہ صابر و شاکر رہے ‘ ،اب تو فرشتے جلدی جلدی بصد شوق ان کی طرف دوڑیں گے ادھر ادھر کے ہر ایک دروازے سے گھسیں گے اور سلام کر کے مبارک پیش کریں گے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:168/2:صحیح) طبرانی میں ہے کہ { سب سے پہلے جنت میں جانے والے تین قسم کے لوگ ہیں فقراء مہاجرین جو مصیبتوں میں مبتلا رہے ، جب انہیں حکم ملا بجا لاتے رہے ، انہیں ضرورتیں بادشاہوں سے ہوتی تھیں لیکن مرتے دم تک پوری نہ ہوئیں ۔ جنت کو بروز قیامت اللہ تعالیٰ اپنے سامنے بلائے گا وہ بنی سنوری اپنی تمام نعمتوں اور تازگیوں کے ساتھ حاضر ہوگی اس وقت ندا ہوگی کہ ’ میرے وہ بندے جو میری راہ میں جہاد کرتے تھے، میری راہ میں ستائے جاتے تھے ، میری راہ میں لڑتے بھڑتے تھے وہ کہاں ہیں؟ آؤ بغیر حساب اور عذاب کے جنت میں چلے جاؤ ‘ ۔ اس وقت فرشتے اللہ کے سامنے سجدے میں گر پڑیں گے اور عرض کریں گے کہ پروردگار ہم تو صبح شام تیری تسبیح وتقدیس میں لگے رہے یہ کون ہیں جنہیں ہم پر بھی تو نے فضیلت عطا فرمائی ؟ اللہ رب العزت فرمائے گا ’ یہ میرے وہ بندے ہیں جنہوں نے میری راہ میں جہاد کیا میری راہ میں تکلیفیں برداشت کیں ‘ ۔ اب تو فرشتے جلدی کر کے ان کے پاس ہر ایک دروازے سے جا پہنچیں گے سلام کریں گے اور مبارک بادیاں پیش کریں گے کہ تمہیں تمہارے صبر کا بدلہ کتنا اچھا ملا } ۔ ۱؎ (مسند احمد:168/2:صحیح) ابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ” مومن جنت میں اپنے تخت پر با آرام نہایت شان سے تکیہ لگائے بیٹھا ہوا ہوگا خادموں کی قطاریں ادھر ادھر کھڑی ہوں گی جو دروازے والے خادم سے فرشتہ اجازت مانگے گا وہ یکے بعد دیگرے پوچھے گا یہاں تک کہ مومن سے پوچھا جائے گا ۔ مومن اجازت دے گا کہ اسے آنے دو یونہی ایک دوسرے کو پیغام پہنچائے گا اور آخری خادم فرشتے کو اجازت دے گا اور دروازہ کھول دے گا ۔ وہ آئے گا اور سلام کرے گا اور چلا جائے گا “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:377/7:) ایک روایت میں ہے کہ { نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال کے آخر پر شہداء کی قبروں پر آتے اور کہتے «سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ» ۱؎ (13-الرعد:24) اور اسی طرح ابوبکر عمر عثمان بھی رضی اللہ عنہم بھی } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:20344:مرسل و ضعیف) [اس کی سند ٹھیک نہیں] ۔