قَالُوا إِن يَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَّهُ مِن قَبْلُ ۚ فَأَسَرَّهَا يُوسُفُ فِي نَفْسِهِ وَلَمْ يُبْدِهَا لَهُمْ ۚ قَالَ أَنتُمْ شَرٌّ مَّكَانًا ۖ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا تَصِفُونَ
برادران یوسف کہنے لگے : اگر اس نے چوری کی ہے تو اس سے بیشتر اس کا بھائی (یوسف) بھی [٧٤] چوری کرچکا ہے۔ یوسف نے (ان کے اس الزام کو) دل میں چھپائے رکھا اور ان پر کچھ ظاہر نہ ہونے دیا اور (زیر لب) کہنے لگے : تم بہت [٧٥] ہی برے لوگ ہو۔ یہ جو کچھ تم بیان کر رہے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے
. بھائی کے تھیلے میں سے جام کا نکلنا دیکھ کر بات بنا دی کہ دیکھو اس نے چوری کی تھی اور یہی کیا اس کے بھائی یوسف نے ایک مرتبہ اس سے پہلے چوری کر لی تھی ۔ وہ واقعہ یہ تھا کہ اپنے نانا کا بت چپکے سے اٹھا لائے تھے اور اسے توڑ دیا تھا ۔ یہ بھی مروی ہے کہ یعقوب علیہ السلام کی ایک بڑی بہن تھیں ، جن کے پاس اپنے والد اسحاق علیہ السلام کا ایک کمر پٹہ تھا جو خاندان کے بڑے آدمی کے پاس رہا کرتا تھا ۔ یوسف علیہ السلام پیدا ہوتے ہی اپنی ان پھوپھی صاحبہ کی پرورش میں تھے ۔ انہیں یوسف علیہ السلام سے کمال درجے کی محبت تھی ۔ جب آپ کچھ بڑے ہو گئے تو یعقوب علیہ السلام نے آپ کو لے جانا چاہا ۔ بہن صاحبہ سے درخواست کی ۔ لیکن بہن نے جدائی و ناقابل برداشت بیان کر کے انکار کر دیا ۔ ادھر آپ کے والد صاحب یعقوب علیہ السلام کے شوق کی بھی انتہا نہ تھی ، سر ہو گئے ۔ آخر بہن صاحبہ نے فرمایا اچھا کچھ دنوں رہنے دو پھر لے جانا ۔ اسی اثنا میں ایک دن انہوں نے وہی کمر پٹہ یوسف علیہ السلام کے کپڑوں کے نیچے چھپا دیا ، پھر تلاش شروع کی ۔ گھر بھر چھان مارا ، نہ ملا ، شور مچا ، آخر یہ ٹھہری کہ گھر میں جو ہیں ، ان کی تلاشیاں لی جائیں ۔ تلاشیاں لی گئیں ۔ کسی کے پاس ہو تو نکلے آخر یوسف علیہ السلام کی تلاشی لی گئی ، ان کے پاس سے برآمد ہوا ۔ یعقوب علیہ السلام کو خبر دی گئی ۔ اور ملت ابراہیمی کے قانون کے مطابق آپ اپنی پھوپھی کی تحویل میں کر دئیے گئے ۔ اور پھوپھی نے اس طرح اپنے شوق کو پورا کیا ۔ انتقال کے وقت تک یوسف علیہ السلام کو نہ چھوڑا ۔ اسی بات کا طعنہ آج بھائی دے رہے ہیں ۔ جس کے جواب میں یوسف علیہ السلام نے چپکے سے اپنے دل میں کہا کہ تم بڑے خانہ خراب لوگ ہو اس کے بھائی کی چوری کا حال اللہ خوب جانتا ہے ۔