سورة یوسف - آیت 21

وَقَالَ الَّذِي اشْتَرَاهُ مِن مِّصْرَ لِامْرَأَتِهِ أَكْرِمِي مَثْوَاهُ عَسَىٰ أَن يَنفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا ۚ وَكَذَٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ وَلِنُعَلِّمَهُ مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ ۚ وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَىٰ أَمْرِهِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور مصر کے جس شخص نے اسے خریدا [١٩] تھا اس نے اپنی بیوی سے کہا : اسے عزت سے رکھو۔ امید ہے کہ یہ نفع دے گا یا ہوسکتا ہے کہ اسے ہم اپنا بیٹا ہی بنا لیں: اس طرح ہم نے یوسف کو اس سرزمین میں قدم جمانے کا موقع فراہم کردیا۔ غرض یہ تھی کہ ہم اسے باتوں کی تاویل سکھا دیں [٢٠] اور اللہ اپنے حکم (نافذ کرنے) پر غالب ہے۔ لیکن اکثر لوگ یہ بات جانتے نہیں

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

بازار مصر سے شاہی محل تک رب کا لطف بیان ہو رہا ہے کہ جس نے آپ علیہ السلام کو مصر میں خریدا ، اللہ نے اس کے دل میں آپ علیہ السلام کی عزت و وقعت ڈال دی ۔ اس نے آپ علیہ السلام کے نورانی چہرے کو دیکھتے ہی سمجھ لیا کہ اس میں خیر و صلاح ہے ۔ یہ مصر کا وزیر تھا ۔ اس کا نام قطفیر تھا ۔ کوئی کہتا ہے اطفیر تھا ۔ اس کے باپ کا نام دوحیب تھا ۔ یہ مصر کے خزانوں کا داروغہ تھا ۔ مصر کی سلطنت اس وقت ریان بن ولید کے ہاتھ تھی ۔ یہ عمالیق میں سے ایک شخص تھا ۔ ۔ عزیز مصر کی بیوی صاحبہ کا نام راعیل تھا ۔ کوئی کہتا ہے زلیخا تھا ۔ یہ رعابیل کی بیٹی تھیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ مصر میں جس نے آپ کو خریدا اس کا نام مالک بن ذعربن قریب بن عنق بن مدیان بن ابراہیم تھا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں سب سے زیادہ دوربین اور دور رس اور انجام پر نظریں رکھنے والے اور عقلمندی سے تاڑنے والے تین شخص گزرے ہیں ۔ ایک تو یہی عزیز مصر کہ بیک نگاہ یوسف کو تاڑ لیا گیا اور جاتے ہی بیوی سے کہا کہ اسے اچھی طرح آرام سے رکھو ۔ دوسری وہ بچی جس نے موسیٰ علیہ السلام کو بیک نگاہ جان لیا اور جا کر باپ سے کا کہ «قَالَتْ إِحْدَاہُمَا یَا أَبَتِ اسْتَأْجِرْہُ ۖ إِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِیٰ الْأَمِینُ» ( 28-القص : 26 ) اگر آپ کو آدمی کی ضرورت ہے تو ان سے معاملہ کر لیجئے یہ قوی اور باامانت شخص ہے ۔ تیسرے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کہ آپ نے دنیا سے رخت ہوتے ہوئے خلافت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جیسے شخص کو سونپی ۔ یہاں اللہ تعالیٰ اپنا ایک اور احسان بیان فرما رہا ہے کہ بھائیوں کے پھندے سے ہم نے چھڑایا پھر ہم نے مصر میں لا کر یہاں کی سر زمین پر ان کا قدم جما دیا ۔ کیونکہ اب ہمارا یہ ارادہ پورا ہونا تھا کہ ہم اسے تعبیر خواب کا کچھ علم عطا فرمائیں ۔ اللہ کے ارادہ کو کون ٹال سکتا ہے ۔ کون روک سکتا ہے ؟ کون خلاف کر سکتا ہے ؟ وہ سب پر غالب ہے ۔ سب اس کے سامنے عاجز ہیں جو وہ چاہتا ہے ہو کر ہی رہتا ہے جو ارادہ کرتا ہے کر چکتا ہے ۔ لیکن اکثر لوگ علم سے خالی ہوتے ہیں ۔ اس کی حکمت کو مانتے ہیں نہ اس کی حکمت کو جانتے ہیں نہ اس کی باریکیوں پر ان کی نگاہ ہوتی ہے ۔ نہ وہ اس کی حکمتوں کو سمجھ سکتے ہیں ۔ جب آپ کی عقل کامل ہوئی جب جسم اپنی نشو و نما تمام کر چکا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت عطا فرمائی اور اس سے آپ کو مخصوص کیا ۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہم نیک کاروں کو اسی طرح بھلا بدلہ دیتے ہیں ۔ کہتے ہیں اس سے مراد تینتیس برس کی عمر ہے ۔ یا تیس سے کچھ اوپر کی یا بیس کی یا چالیس کی یا پچیس کی یا تیس کی یا اٹھارہ کی ۔ یا مراد جوانی کو پہنچنا ہے اور اس کے سوا اور اقوال بھی ہیں «وَاللہُ اَعْلَمُ»