قَالَ إِنِّي لَيَحْزُنُنِي أَن تَذْهَبُوا بِهِ وَأَخَافُ أَن يَأْكُلَهُ الذِّئْبُ وَأَنتُمْ عَنْهُ غَافِلُونَ
یعقوب نے کہا: ’’اگر تم اسے لے جاؤ تو ایک تو مجھے (اس کی جدائی کا) رنج ہوگا دوسرے میں اس بات سے بھی ڈرتا ہوں کہ تم اس سے بے خبر ہوجاؤ تو اسے کہیں [١١] بھیڑیا نہ کھا جائے‘‘
انجانے خطرے کا اظہار نبی اللہ یعقوب علیہ السلام اپنے بیٹوں کی اس طلب کا کہ بھائی یوسف کو ہمارے ساتھ سیر کے لیے بھیجئے جواب دیتے ہیں کہ تمہیں معلوم ہے مجھے اس سے بہت محبت ہے ۔ تم اسے لے جاؤ گے مجھ پر اس کی اتنی دیر کی جدائی بھی شاق گزرے گی ۔ یعقوب علیہ السلام کی اس بڑھی ہوئی محبت کی وجہ یہ تھی کہ آپ یوسف علیہ السلام کے چہرے پر خیر کے نشان دیکھ رہے تھے ۔ نبوت کا نور پیشانی سے ظاہر تھا ۔ اخلاق کی پاکیزگی ایک ایک بات سے عیاں تھی ۔ صورت کی خوبی ، سیرت کی اچھائی کا بیان تھی ، اللہ کی طرف سے دونوں باپ بیٹوں پر صلوۃ و سلام ہو ۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ ممکن ہے تم اپنی بکریوں کے چرانے چگانے اور دوسرے کاموں میں مشغول رہو اور اللہ نہ کرے کوئی بھیڑیا آ کر اس کا کام تمام کر جائے اور تمہیں پتہ بھی نہ چلے ۔ آہ یعقوب علیہ السلام کی اسی بات کو انہوں نے لے لیا اور دماغ میں بسا لیا کہ یہی ٹھیک عذر ہے ، یوسف علیہ السلام کو الگ کر کے ابا کے سامنے یہی من گھڑت گھڑ دیں گے ۔ اسی وقت بات بنائی اور جواب دیا کہ ابا آپ نے کیا خوب سوچا ۔ ہماری جماعت کی جماعت قوی اور طاقتور موجود ہو اور ہمارے بھائی کو بھیڑیا کھا جائے ؟ بالکل نا ممکن ہے ۔ اگر ایسا ہو جائے تو پھر تو ہم سب بے کار نکمے عاجز نقصان والے ہی ہوئے ۔