سورة ھود - آیت 87

قَالُوا يَا شُعَيْبُ أَصَلَاتُكَ تَأْمُرُكَ أَن نَّتْرُكَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا أَوْ أَن نَّفْعَلَ فِي أَمْوَالِنَا مَا نَشَاءُ ۖ إِنَّكَ لَأَنتَ الْحَلِيمُ الرَّشِيدُ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

وہ کہنے لگے : شعیب! کیا تمہاری نماز تمہیں یہی سکھاتی [٩٧] ہے کہ ہم ان معبودوں کو چھوڑ دیں جنہیں ہمارے آباء و اجداد پوجتے آئے ہیں یا جیسے ہم چاہتے ہیں اپنے اموال میں تصرف [٩٨] کرنا چھوڑ دیں؟ تم تو بڑے بردبار اور بھلے مانس آدمی تھے

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

پرانے معبودوں سے دستبرداری سے انکار اعمش فرماتے ہیں صلواۃ سے مراد یہاں قرأت ہے ۔ وہ لوگ ازراہ مذاق کہتے ہیں کہ واہ آپ اچھے رہے کہ آپ کو آپ کی قرآت نے حکم دیا کہ ہم باپ دادوں کی روش کو چھوڑ کر اپنے پرانے معبودوں کی عبادت سے دست بردار ہو جائیں ۔ یہ اور بھی لطف ہے کہ ہم اپنے مال کے بھی مالک نہ رہیں کہ جس طرح جو چاہیں اس میں تصرف کریں کسی کو ناپ تول میں کم نہ دیں ۔ حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” واللہ واقعہ یہی ہے کہ شعیب علیہ السلام کی نماز کا حکم یہی تھا کہ آپ علیہ السلام انہیں غیر اللہ کی عبادت اور مخلوق کے حقوق کے غصب سے روکیں “ ۔ ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” ان کے اس قول کا مطلب کہ جو ہم چاہیں ، اپنے مالوں میں کریں یہ ہے کہ زکوٰۃ کیوں دیں ؟ نبی اللہ علیہ السلام کو ان کا حلیم و رشید کہنا ازراہ مذاق و حقارت تھا “ ۔