وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَٰؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللَّهِ ۚ قُلْ أَتُنَبِّئُونَ اللَّهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ
یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کی پرستش کرتے ہیں جو ان کا نہ کچھ بگاڑ سکیں اور نہ [٢٨] فائدہ پہنچا سکیں اور کہتے یہ ہیں کہ ’’اللہ کے ہاں یہ ہمارے سفارشی ہوں گے‘‘ آپ ان سے کہئے : ’’ کیا تم اللہ کو ایسی بات کی خبر دیتے ہو جس کا وجود نہ کہیں آسمانوں میں اسے معلوم ہوتا ہے اور نہ زمین [٢٩] میں؟‘‘ وہ ایسی باتوں سے پاک اور بالاتر ہے جو یہ شرک کرتے ہیں
شرک کے آغاز کی روداد مشرکوں کا خیال تھا کہ جن کو ہم پوجتے ہیں یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہوں گے اس غلط عقیدے کی قرآن کریم تردید فرماتا ہے کہ ’ وہ کسی نفع نقصان کا اختیار نہیں رکھتے ان کی شفاعت تمہارے کچھ کام نہ آئے گی ۔ تم تو اللہ کو بھی سکھانا چاہتے ہو گویا جو چیز زمین آسمان میں وہ نہیں جانتا تم اس کی خبر اسے دینا چاہتے ہو ۔ یعنی یہ خیال غلط ہے ۔ اللہ تعالیٰ شرک و کفر سے پاک ہے وہ برتر و بری ہے ‘ ۔ سنو پہلے سب کے سب لوگ اسلام پر تھے ۔ آدم علیہ السلام سے لے کر نوح علیہ السلام تک دس صدیاں وہ سب لوگ مسلمان تھے ۔ پھر اختلاف رونما ہوا اور لوگوں نے تیری میری پرستش شروع کر دی ۔ اللہ تعالیٰ نے رسولوں کے سلسلوں کو جاری کیا تاکہ «لِّیَہْلِکَ مَنْ ہَلَکَ عَن بَیِّنَۃٍ وَیَحْیَیٰ مَنْ حَیَّ عَن بَیِّنَۃٍ» ۱؎ (8-الأنفال:42) ’ ثبوت و دلیل کے بعد جس کا جی چاہے زندہ رہے جس کا جی چاہے مر جائے ‘ ۔ چونکہ اللہ کی طرف سے فیصلے کا دن مقرر ہے ۔ حجت تمام کرنے سے پہلے عذاب نہیں ہوتا اس لیے موت مؤخر ہے ۔ ورنہ ابھی ہی حساب چکا دیا جاتا ۔ مومن کامیاب رہتے اور کافر ناکام ۔