وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ ۙ قَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا ائْتِ بِقُرْآنٍ غَيْرِ هَٰذَا أَوْ بَدِّلْهُ ۚ قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِن تِلْقَاءِ نَفْسِي ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۖ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ
اور جب ان (کافروں) پر ہماری واضح آیات پڑھی جاتی ہیں جو ہم سے ملنے کی توقع [٢٢] نہیں رکھتے تو کہتے ہیں: ’’اس قرآن کے سوا کوئی اور قرآن لاؤ یا اس میں [٢٣] تبدیلی کردو‘‘ آپ ان سے کہئے: ’’مجھے یہ حق نہیں کہ میں اپنی طرف سے اس میں تبدیلی [٢٤] کر دوں۔ میں تو اسی کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی کی جاتی ہے۔ اگر میں اپنے پروردگار کی نافرمانی کروں تو میں بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں‘‘
کفار کی بدترین حجتیں مکے کے کفار کا بغض دیکھئیے قرآن سن کر کہنے لگے ، اسے تو بدل لا ، بلکہ کوئی اور ہی لا ۔ تو جواب دے کہ یہ میرے بس کی بات نہیں میں تو اللہ کا غلام ہوں اس کا رسول ہوں اس کا کہا کہتا ہوں ۔ اگر میں ایسا کروں تو قیامت کے عذاب کا مجھے ڈر ہے ۔ دیکھو اس بات کی دلیل یہ کیا کم ہے ؟ کہ میں ایک بے پڑھا لکھا شخص ہوں تم لوگ استاد کلام ہو لیکن پھر بھی اس کا معروضہ اور مقابلہ نہیں کرسکتے ۔ میری صداقت و امانت کے تم خود قائل ہو ۔ میری دشمنی کے باوجود تم آج تک مجھ پر انگلی ٹکا نہیں سکتے ۔ اس سے پہلے میں تم میں اپنی عمر کا بڑا حصہ گزار چکا ہوں ۔ کیا پھر بھی عقل سے کام نہیں لیتے ؟ شاہ روم ہرقل نے ابوسفیان اور ان کے ساتھیوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفتیں دریافت کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا دعویٰ نبوت سے پہلے کبھی تم نے اسے جھوٹ کی تہمت لگائی ہے ؟ تو اسے باوجود دشمن اور کافر ہونے کے کہنا پڑا کہ نہیں ، یہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت جو دشمنوں کی زبان سے بھی بے ساختہ ظاہر ہوتی تھی ۔ ہرقل نے نتیجہ بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں کیسے مان لوں کہ لوگوں کے معاملات میں تو جھوٹ نہ بولے اور اللہ پر جھوٹ بہتان باندھ لے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7) جعفر بن ابوطالب نے دربار نجاشی میں شاہ حبش سے فرمایا تھا ” ہم میں اللہ نے جس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا ہے ہم اس کی صدقت امانت نسب وغیرہ سب کچھ جانتے ہیں وہ نبوت سے پہلے ہم میں چالیس سال گزار چکے ہیں “ ۔ سعید بن مسیب سے تنتالیس سال مروی ہیں لیکن مشہور قول پہلا ہی ہے ۔