وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِن قَبْلِكُمْ لَمَّا ظَلَمُوا ۙ وَجَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ وَمَا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا ۚ كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْقَوْمَ الْمُجْرِمِينَ
ہم تم سے پہلے کی بہت سی قوموں [١٩] کو ہلاک کرچکے ہیں جبکہ انہوں نے ظلم کی روش [٢٠] اختیار کی۔ ان کے پاس ان کے رسول واضح دلائل لے کر آئے مگر وہ ایمان لانے والے نہ تھے۔ ہم مجرم لوگوں کو ایسے ہی سزا دیتے ہیں
. اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ ’ سابقہ اقوام پر تکذیب رسول کی وجہ سے عذاب آئے تہس نہس ہوگئے ۔ اب تم ان کے قائم مقام ہو اور تمہارے پاس بھی افضل الرسل صلی اللہ علیہ وسلم آچکے ہیں ، اللہ دیکھ رہا ہے کہ تمہارے اعمال کی کیا کیفیت رہتی ہے ؟ ‘ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دنیا میٹھی ، مزے کی ، سبز رنگ والی ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس میں تمہیں خلیفہ بنا کر دیکھ رہا ہے کہ تم کیسے اعمال کرتے ہو ؟ دنیا سے ہوشیار رہو ، اور عورتوں سے ہوشیار رہو ، بنی اسرائیل میں سب سے پہلا فتنہ عورتوں کا ہی آیا تھا } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2742) سیدنا عوف بن مالک رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا آسمان سے ایک رسی لٹکائی گئی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اسے مکمل تھام لیا ، پھر لٹکائی گئی تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی اسی طرح اسے مضبوطی سے تھام لیا ۔ پھر منبر کے اردگرد لوگوں نے ماپنا شروع کیا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تین ذراع بڑھ گئے ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ خواب سن کر فرمایا بس ہٹاؤ بھی ، ہمیں خوابوں کیا حاجت ؟ پھر اپنی خلافت کے زمانے میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا ” عوف تمہارا خواب کیا تھا ؟ “ سیدنا عوف رضی اللہ عنہ نے کہا جانے دیجئیے ۔ جب آپ رضی اللہ عنہ کو اس کی ضرورت ہی نہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے جب مجھے ڈانٹ دیا پھر اب کیوں پوچھتے ہیں ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” اس وقت تو تم خلیفۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی موت کی خبر دے رہے تھے ۔ اب بیان کرو انہوں نے بیان کیا ۔ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” لوگوں کا منبر کی طرف تین ذراع پانا یہ تھا کہ ایک تو خلیفہ برحق تھا ، دوسرے خلیفہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے بالکل بے پرواہ تھا ۔ تیسرا خلیفہ شہید ہے “ ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’ پھر ہم نے تمہیں خلیفہ بنایا کہ ہم تمہارے اعمال دیکھیں ‘ ۔ اے عمر رضی اللہ عنہ کی ماں کے لڑکے تو خلیفہ بنا ہوا ہے ،خوب دیکھ بھال لے کہ کیا کیا عمل کر رہا ہے ؟ آپ کا فرمان کہ ” میں اللہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی پرواہ نہیں کرتا “ سے مراد ان چیزوں میں ہے جو اللہ چاہے ۔ شہید ہونے سے مراد یہ ہے کہ جب عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی اس وقت مسلمان آپ رضی اللہ عنہ کے مطیع و فرمانبردار تھے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:17090:ضعیف)