سورة یونس - آیت 11

وَلَوْ يُعَجِّلُ اللَّهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَهُم بِالْخَيْرِ لَقُضِيَ إِلَيْهِمْ أَجَلُهُمْ ۖ فَنَذَرُ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور اگر اللہ بھی لوگوں کو برائی پہنچانے میں ایسے ہی جلدی کرتا جیسے وہ بھلائی کو جلد از جلد چاہتے ہیں تو اب تک ان کی مدت (موت) پوری ہوچکی ہوتی (مگر اللہ کا یہ دستور نہیں) لہٰذا جو لوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے انہیں ہم ان کی سرکشی میں بھٹکتے رہنے کے لئے کھلا چھوڑ [١٧] دیتے ہیں۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

اللہ تعالٰی اپنے احسانات کا تذکرہ فرماتے ہیں فرمان ہے کہ ’ میرے الطاف اور میری مہربانیوں کو دیکھو ، کہ بندے کبھی کبھی تنگ آ کر ، گھبرا کر اپنے لیے ، اپنے بال بچوں کے لیے اپنے مالک کے لیے ، بد دعائیں کربیٹھتے ہیں لیکن میں انہیں قبول کرنے میں جلدی نہیں کرتا ، ورنہ وہ کسی گھر کے نہ رہیں جیسے کہ میں انہی چیزوں کی برکت کی دعائیں قبول فرما لیا کرتا ہوں ، ورنہ یہ تباہ ہو جاتے ‘ ۔ پس بندوں کو ایسی بدعاؤں سے پرہیز کرنا چاہیئے ۔ چنانچہ مسند بزار کی حدیث میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ، { اپنی جان و مال پر بد دعا نہ کرو ۔ ایسا نہ ہو کہ کسی قبولیت کی ساعت موافقت کر جائے اور وہ بد دعا قبول ہو جائے } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:1532،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اسی مضمون کا بیان «وَیَدْعُ الإِنْسَـنُ بِالشَّرِّ دُعَآءَہُ بِالْخَیْرِ» ۱؎ (17-الإسراء:11) میں ہے ، غرض یہ ہے کہ انسان کا کسی وقت اپنی اولاد مال وغیرہ کے لیے بد دعا کرنا کہ اللہ اسے غارت کرے وغیرہ ۔ ایک نیک دعاؤں کی طرح قبولیت میں ہی آ جایا کرے تو لوگ برباد ہوجائیں ۔