سورة التوبہ - آیت 123

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قَاتِلُوا الَّذِينَ يَلُونَكُم مِّنَ الْكُفَّارِ وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اے ایمان والو ! ان کافروں [١٤٠] سے جنگ کرو جن کا علاقہ تمہارے ساتھ ملتا ہے۔ اور ان کے ساتھ تمہیں سختی [١٤١] سے پیش آنا چاہئے اور یہ جان لو کہ اللہ پرہیزگاروں [١٤٢] کے ساتھ ہے

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

اسلامی مرکز کا استحکام اولین اصول ہے اسلامی مرکز کے متصل جو کفار ہیں ، پہلے تو مسلمانوں کو ان سے نمٹنا چاہیئے ۔ اسی حکم کے بموجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے جزیرۃ العرب کو صاف کیا ، یہاں غلبہ پاکر مکہ ، مدینہ ، طائف ، یمن ، یمامہ ، ہجر خیبر ، حضر موت وغیرہ کل علاقہ فتح کر کے یہاں کے لوگوں کو اسلامی جھنڈے تلے کھڑا کر کے غزوہ روم کی تیاری کی ۔ جو اول تو جزیرہ عرب سے ملحق تھا دوسرے وہاں کے رہنے والے اہل کتاب تھے ۔ تبوک تک پہنچ کر حالات کی ناساز گاری کی وجہ سے آگے کا عزم ترک کیا ۔ یہ واقعہ ٩ھ کا ہے ۔ دسویں سال حجۃ الوداع میں مشغول رہے ۔ اور حج کے صرف اکاسی دن بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کو پیارے ہوئے ۔ آپ کے بعد آپ کے نائب ، دوست اور خلیفہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ آئے ۔ اس وقت دین اسلام کی بنیادیں متزلزل ہو رہی تھیں کہ آپ نے انہیں مضبوط کر دیا اور مسلمانوں کی ابتری کو برتری سے بدل دیا ۔ دین سے بھاگنے والوں کو واپس اسلام میں لے آئے ۔ مرتدوں سے دنیا خالی کی ۔ ان سرکشوں نے جو زکوٰۃ روک لی تھی ان سے وصول کی ، جاہلوں پر حق واضح کیا ۔ امانت رسول ادا کی ۔ اور ان ابتدائی ضروری کاموں سے فارغ ہوتے ہی اسلامی لشکروں کو سر زمین روم کی طرف دوڑا دیا کہ صلیب پرستوں کو ہدایت کریں ۔ اور ایسے ہی جرار لشکر فارس کی طرف بھیجے کہ وہاں کے آتش کدے ٹھنڈے کریں ۔ پس آپ کی سفارت کی برکت سے رب العالمین نے ہر طرف فتح عطا فرمائی ۔ کسری اور قیصر خاک میں مل گئے ۔ ان کے پرستار بھی غارت و برباد ہوئے ان کے خزانے راہ اللہ میں کام آئے ۔ اور جو خبر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دے گئے تھے وہ پوری ہوئی ۔ جو کسر رہ گئی تھی آپ کے وصی اور ولی شہید محراب سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں پوری ہوئی ۔ کافروں اور منافقوں کی رگ ہمیشہ کے لیے کچل دی گئی ۔ ان کے زور ڈھا دیئے گئے ۔ اور مشرق و مغرب تک فاروقی سلطنت پھیل گئی ۔ قریب و بعید سے بھرپور خزانے دربار فاروق میں آئے ۔ اور شرعی طور پر حکم الٰہی کے ماتحت مسلمانوں میں مجاہدین میں تقسیم ہونے لگے ۔ اس پاک نفس ، پاک روح شہید کی شہادت کے بعد مہاجرین و انصار کے اجماع سے امر خلافت امیر المؤمنین شہید الدار سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے سپرد ہوا ۔ اس وقت اسلام اپنی اصلی شان سے ظہور پذیر تھا ۔ اسلام کے لمبے اور زور آور ہاتھوں نے روئے زمین پر قبضہ جما لیا تھا ۔ بندوں کی گردنیں اللہ کے سامنے خم ہو چکیں تھیں ۔ حجت ربانی ظاہر تھی ، کلمہ الٰہی غالب تھا ۔ شان عثمان اپنا کام کرتی جاتی تھی ۔ آج اس کو حلقہ بگوش کیا تو کل اس کو یکے بعد دیگرے کئی ممالک مسلمانوں کے ہاتھوں زیر نگیں خلافت ہوئے ۔ یہی تھا اس آیت کے پہلے جملے پر عمل کہ نزدیک کے کافروں سے جہاد کرو ۔ پھر فرماتا ہے کہ لڑائی میں انہیں تمہارا زور بازو معلوم ہو جائے ۔ کامل مومن وہ ہے جو اپنے مومن بھائی سے تو نرمی برتے لیکن اپنے دشمن کافر پر سخت ہو ۔ جیسے فرمان ہے «فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰہُ بِقَوْمٍ یٰحِبٰہُمْ وَیُحِبٰوْنَہٗٓ» ۱؎ (5-المآئدہ:54) الخ ، یعنی اللہ ایسے لوگوں کو لائے گا جو اس کے محبوب ہوں اور وہ بھی اس سے محبت رکھتے ہوں ۔ مومنوں کے سامنے تو نرم ہوں اور کافروں پر ذی عزت ہوں ۔ اس طرح اور آیت میں ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھ والے آپس میں نرم دل ہیں ۔ کافروں پر سخت ہیں ۔ ۱؎ (48-الفتح:29) ارشاد ہے «یٰٓاَیٰھَا النَّبِیٰ جَاہِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِیْنَ وَاغْلُظْ عَلَیْہِمْ» ۱؎ (9-التوبہ:73) یعنی اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ! کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو اور ان پر سختی کرو ۔ حدیث میں ہے کہ میں «الضحوک» ہوں یعنی اپنوں میں نرمی کرنے والا اور «قتال» ہوں یعنی دشمنان رب سے جہاد کرنے والا ۔ پھر فرماتا ہے کہ جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ پرہیز گاوروں کے ساتھ ہے ۔ یعنی کافروں سے لڑو ، بھروسہ اللہ پر رکھ ، اور یقین مانو کہ جب تم اس سے ڈرتے رہو گے ، اس کی فرماں برداری کرتے رہو گے ، تو اس کی مدد و نصرت بھی تمہارے ساتھ رہے گی ۔ دیکھ لو ! خیر کے تینوں زمانوں تک ملسمانوں کی یہی حالت رہی ۔ دشمن تباہ حال اور مغلوب رہے ۔ لیکن جب ان میں تقویٰ اور اطاعت کم ہو گئی ۔ فتنے فساد پڑ گئے ، اختلاف اور خواہش پسندی شروع ہو گئی ۔ تو وہ بات نہ رہی ، دشمنوں کی للچائی ہوئی نظریں ان پر اُٹھیں ۔ وہ اپنی اپنی کمین گاہوں سے نکل کھڑے ہوئے ، ادھر کا رخ کیا لیکن پھر بھی مسلمان سلاطین آپس میں اُلجھے رہے ، وہ ادھرادھر سے نوالے لینے لگے ۔ آخر دشمن اور بڑھے ، سلطنتیں کچلنی شروع کیں ، ملک فتح کرنے شروع کئے آہ ! اکثر حصہ اسلامی مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گیا ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا یہی حکم اس سے پہلے تھا اور اس کے بعد بھی ہے ۔ تاہم جو بادشاہ جس قدر اللہ سے ڈرنے والا ہو اسی قدر اللہ کی مدد نے اس کا ساتھ دیا ۔ اب بھی اللہ سے امید اور دعا ہے کہ وہ پھر سے مسلمانوں کو غلبہ دے اور کافروں کی چوٹیاں ان کے ہاتھ میں دے دے ۔ دنیا جہاں میں ان کا بول بالا ہو ۔ اور پھر سے مشرق سے لے کر مغرب تک پرچم اسلام لہرانے لگے ۔ وہ اللہ کریم وجواد ہے ۔