يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ ۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ
اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو جبکہ رسول تمہیں ایسی چیز کی طرف بلائے جو تمہارے لیے زندگی [٢٣] بخش ہو۔ اور یہ جان لو کہ اللہ تعالیٰ آدمی اور اس کے دل کے درمیان [٢٤] حائل ہوجاتا ہے اور اسی کے حضور تم جمع کئے جاؤ گے
دل رب کی انگلیوں میں ہیں صحیح بخاری شریف میں ہے«اسْتَجِیبُوا» معنی میں «أَجِیبُوا» کے ہے«لِمَا یُحْیِیکُمْ» معنی «بِما یُصْلِحُکُم» کے ہے یعنی ’ اللہ اور اس کا رسول تمہیں جب آواز دے تم جواب دو اور مان لو کیونکہ اس کے فرمان کے ماننے میں ہی تمہاری مصلحت ہے ۔‘ ابوسعید بن معلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ { میں نماز میں تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گذرے ۔ مجھے آواز دی ، میں آپ کے پاس نہ آیا ۔ جب نماز پڑھ چکا تو حاضر خدمت ہوا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تجھے کس نے روکا تھا کہ تو میرے پاس چلا آئے ؟ کیا اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا کہ اے ایمان والو اللہ اور اللہ کا رسول تمہیں جب آواز دیں تم قبول کر لیا کرو کیونکہ اسی میں تمہاری زندگی ہے ۔ سنیں اس مسجد سے نکلنے سے پہلے ہی میں تمہیں قرآن کی سب سے بڑی سورت سکھاؤں گا ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد سے جانے کا ارادہ کیا تو میں نے آپ کو آپ کا وعدہ یاد دلایا } ۱؎ (صحیح بخاری:4647) اور روایت میں ہے کہ یہ واقعہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ سورت فاتحہ بتلائی اور فرمایا: { سات آیتیں دوہرائی ہوئی یہی ہیں ۔ } اس حدیث کا پورا پورا بیان سورۃ فاتحہ کی تفسیر میں گذر چکا ہے ۔ زندگی ، آخرت میں نجات ، عذاب سے بچاؤ اور چھٹکارا قرآن کی تعلیم ، حق کو تسلیم کرنے اور اسلام لانے اور جہاد میں ہے ۔ ان ہی چیزوں کا حکم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے ۔ اللہ انسان اور اس کے دل میں حائل ہے ۔ یعنی مومن میں اور کفر میں کافر میں اور ایمان میں ۔ یہ معنی ایک مرفوع حدیث میں بھی ہیں لیکن ٹھیک یہی ہے کہ یہ قول سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا ہے مرفوع حدیث نہیں ۔(الدر المنشور للسیوطی:320/3) مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں یعنی اسے اس حال میں چھوڑنا ہے کہ وہ کسی چیز کو سمجھتا نہیں ۔ سدی رحمہ اللہ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر نہ ایمان لا سکے نہ کفر کر سکے ۔ قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ آیت مثل آیت « وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ» ۱؎ ( 50- ق : 16 ) کے ہے یعنی ’ بندے کی رگ جان سے بھی زیادہ نزدیک ہم ہیں ۔ ‘ اس آیت کے مناسب حدیثیں بھی ہیں ۔ مسند احمد میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر فرمایا کرتے تھے کہ { «یَا مُقَلِّبَ القُلُوبِ ثَبِّت قَلْبِی عَلَی دِینِکَ» اے دلوں کے پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ ۔ } تو ہم نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری ہوئی وحی پر ایمان لا چکے ہیں کیا پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہماری نسبت خطرہ ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { ہاں اللہ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان دل ہیں وہ جس طرح چاہتا ہے ان کا تغیر و تبدل کرتا رہتا ہے ۔} ۱؎ (سنن ترمذی:2140،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ترمذی میں بھی یہ روایت کتاب القدر میں موجود ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھا کرتے تھے { «یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِی عَلَی دِینِکَ» اے دلوں کے پھیر نے والے میرے دل کو اپنے دین پر مضبوطی سے قائم رکھ ۔ } مسند احمد میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { ہر دل اللہ تعالیٰ رب العالمین کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہے جب سیدھا کرنا چاہتا ہے کر دیتا ہے اور جب ٹیڑھا کرنا چاہتا ہے کر دیتا ہے } (سنن ترمذی:2140،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا تھی کہ { اے مقلب القلوب اللہ میرا دل اپنے دین پر ثابت قدم رکھ ، فرماتے ہیں میزان رب رحمان کے ہاتھ میں ہے ، جھکاتا ہے اور اونچی کرتا ہے ۔ } ۱؎ (سنن ابن ماجہ:199،قال الشیخ الألبانی:صحیح) مسند کی اور حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا کو اکثر سن کر مائی عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ بکثرت اس دعا کے کرنے کی کیا وجہ ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { انسان کا دل اللہ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہے جب چاہتا ہے ٹیڑھا کر دیتا ہے اور جب چاہتا ہے سیدھا کر دیتا ہے ۔} مسند احمد میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا کو بکثرت سن کر سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ { کیا دل پلٹ جاتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی جواب دیا ۔ ہم اللہ تعالیٰ سے جو ہمارا پروردگار ہے دعا کرتے ہیں کہ « رَبَّنَا أَنْ لَا یُزِیغَ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ ہَدَانَا ، وَنَسْأَلُہُ أَنْ یَہَبَ لَنَا مِنْ لَدُنْہُ رَحْمَۃً إِنَّہُ ہُوَ الْوَہَّابُ» وہ ہدایت کے بعد ہمارے دل ٹیڑھے نہ کر دے اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت و نعمت عطا فرمائے وہ بڑی ہی بخشش کرنے والا اور بہت انعاموں والا ہے۔ } سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں { میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پھر درخواست کی کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے میرے لیے بھی کوئی دعا سکھائیں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں یہ دعا مانگا کرو دعا« اللَّہُمَّ رَبَّ النَّبِیِّ مُحَمَّدٍ ، اغْفِرْ لِی ذَنْبِی ، وَأَذْہِبْ غَیْظَ قَلْبِی ، وَأَجِرْنِی مِنْ مُضِلاتِ الْفِتَنِ» یعنی اے اللہ اسے محمد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پروردگار میرے گناہ معاف فرما میرے دل کی سختی دور کر دے مجھے گمراہ کرنے والے فتنوں سے بجا لے جب تک بھی تو مجھے زندہ رکھ ۔ } ۱؎ (مسند احمد:302/6:ضعیف) مسند احمد میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { تمام انسانوں کے دل ایک ہی دل کی طرح اللہ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہیں ۔ جس طرح چاہتا ہے انہیں الٹ پلٹ کرتا رہتا ہے پھر آپ نے دعا کی کہ « اللہُمَّ مُصَرِّفَ الْقُلُوبِ ، صَرِّفْ قُلُوبَنَا إِلَی طَاعَتِکَ» اے دلوں کے پھیر نے والے اللہ ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی طرف پھیر لے۔ }۱؎ (صحیح مسلم:2654)