وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ فَأَتَوْا عَلَىٰ قَوْمٍ يَعْكُفُونَ عَلَىٰ أَصْنَامٍ لَّهُمْ ۚ قَالُوا يَا مُوسَى اجْعَل لَّنَا إِلَٰهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ ۚ قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ
اور (جب) ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر سے پار اتار دیا تو وہ ایک ایسی قوم کے پاس آئے جو اپنے بتوں کی عبادت میں لگے ہوئے تھے۔ کہنے لگے : ’’موسیٰ ! ہمیں بھی ایک ایسا الٰہ بنا دو جیسا ان لوگوں کا الٰہ ہے‘‘ موسیٰ نے کہا : ’’بلاشبہ تم بڑے [١٣٤] جاہل لوگ ہو‘‘
شوق بت پرستی اتنی ساری اللہ کی قدرت کی نشانیاں بنی اسرائیل دیکھ چکے لیکن دریا پار اترتے ہی بت پرستوں کے ایک گروہ کو اپنے بتوں کے آس پاس اعتکاف میں بیٹھے دیکھتے ہی موسیٰ علیہ السلام سے کہنے لگے کہ ہمارے لیے بھی کوئی چیز مقرر کر دیجئے تاکہ ہم بھی اس کی عبادت کریں جیسے کہ ان کے معبود ان کے سامنے ہیں ۔ یہ کافر لوگ کنعانی تھے ۔ ایک قول ہے کہ لحم قبیلہ کے تھے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:46/6) یہ گائے کی شکل بنائے ہوئے اس کی پوجا کر رہے تھے ۔ موسیٰ علیہ السلام نے اس کے جواب میں فرمایا کہ تم اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال سے محض ناواقف ہو ۔ تم نہیں جانتے کہ اللہ شریک و مثیل سے پاک اور بلند تر ہے ۔ یہ لوگ جس کام میں مبتلا ہیں ، وہ تباہ کن ہے اور ان کا عمل باطل ہے ۔ سیدنا ابوواقد لیثی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ { جب لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکے شریف سے حنین کو روانہ ہوئے تو راستے میں انہیں بیری کا وہ درخت ملا جہاں مشرکین مجاور بن کر بیٹھا کرتے تھے اور اپنے ہتھیار وہاں لٹکایا کرتے تھے ، اس کا نام ذات انواط تھا تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ایک ذات انواط ہمارے لیے بھی مقرر کر دیں ۔ آپ نے فرمایا : اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم نے قوم موسیٰ علیہ السلام جیسی بات کہہ دی کہ ہمارے لیے بھی معبود مقرر کر دیجئے جیسا ان کا معبود ہے ۔ جس کے جواب میں کلیم اللہ علیہ السلام نے فرمایا : تم جاہل لوگ ہو ، یہ لوگ جس شغل میں ہیں ، وہ ہلاکت خیز ہے اور جس کام میں ہیں ، وہ باطل ہے ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:15065) [ ابن جریر ] مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ یہ درخواست کرنے والے ابوواقد لیثی تھے ۔ جواب سے پہلے یہ سوال سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ اکبر کہنا بھی مروی ہے اور یہ بھی کہ آپ نے فرمایا کہ { تم بھی اپنے اگلوں کی سی چال چلنے لگے ۔ } ۱؎(سنن ترمذی:2180،قال الشیخ الألبانی:صحیح)